ColumnRoshan Lal

اکبر ایس بابر بنام عمران خان ۔۔ روشن لال

روشن لعل

 

ایک زمانہ تھا جب عمران خان اور اکبر ایس بابر تحریک انصاف میںشیر و شکر بن کر موجود تھے۔ ’’یک جان دو قالب ‘‘ سمجھے جانے والے اکبر ایس بابر اور عمران خان پہلے ایک نہر کے دو کنارے بنے اور پھر آہستہ آہستہ ایک ہی سمندر میں میلوں دور موجود جزیرے بن کر رہ گئے۔ اکبر ایس بابر کہنے کو تو اب بھی بانی رکن کی حیثیت سے تحریک انصاف کا حصہ ہیں مگر اس جماعت کے اول و آخر چیئرمین سے اتنا دور ہو چکے ہیں جتنا دور شاید ابھی تک جہانگیر ترین بھی نہیں ہوسکے۔ ان دونوںکے دور ہونے کی کسی نے وجہ تلاش کرنی ہو تو یہ بات ذہن میں رکھے کہ تحریک انصاف کے قیام کے وقت اس کے جو آدرش طے کیے گئے تھے اکبر ایس بابر خود کو تو اب بھی ان آدرشوں پر قائم سمجھتے ہیں مگر ان کے خیال میں عمران خان نہ صرف ان آدرشوں کو فراموش کرچکے ہیں بلکہ ہر لحاظ سے ان کے برعکس سیاست کر رہے ہیں۔اکبر ایس بابر کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت نے مبنی بر انصاف معاشرے کے قیام کو اپنا آدرش بنایا ہو تو اس وقت تک ان آدرشوں کے مطابق عمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کے تمام معاملات صاف و شفاف نہ ہوں۔ بابر صاحب پارٹی کے مالی معاملات میں شفافیت کو سب سے زیادہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ جب انہیں تحریک انصاف کے مالی معاملات میں فارن فنڈنگ کی وجہ سے شفافیت مشکوک نظر آئی تو انہوں نے عمران خان کو اس سے آگاہ کیا۔ عمران خان کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے بعد وہ اپنے شکوک و شبہات تحریری طور پر پارٹی کے دیگر سرکردہ لوگوں کے سامنے لے کر آئے۔اکبر ایس بابر کی یہ حرکت عمران خان کو سخت ناگوار گزری۔ عمران خان کی ناگواری کے بعد کیسے ممکن تھا کہ تحریک انصاف میں کوئی اکبر ایس بابر کا پرسان حال بننے کی جرأت کرتا،جس جماعت کے وہ بانی رکن ہیں اس میں اپنی حیثیت راندہ درگاہ جیسی ہو جانے کے بعد اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کی مالی بے ضابطگیوں کو مقدمے کی شکل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے پیش کیا۔ یوں آٹھ برس قبل الیکشن کمیشن کے فورم پر اس مقدمے کا آغاز ہوا جسے دنیا ’’ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ‘‘ کیس کے نام سے جانتی ہے اور جس کا فیصلہ طویل انتظار کے بعد 2 اگست 2022 کو سنایا گیا۔
پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس دائر تو اکبر ایس بابر نے کیا تھا مگر اس کا فیصلہ آنے کے بعدمیڈیا پر جو تبصرے ہورہے ہیں ان سے یوں محسوس ہوتاہے جیسے الیکشن کمیشن میں آٹھ برس تک جو جنگ بابر صاحب نے لڑی وہ ان کی نہیں بلکہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی جنگ تھی ۔ اکبر ایس بابر نے جو جنگ پی ٹی آئی کے اندر لڑنا شروع کی وہ اس پارٹی کے اندر ہی ختم ہو سکتی تھی۔ یہ جنگ الیکشن کمیشن اور میڈیا کے محاذوں پر لڑی گئی تو اس کی ذمہ داری بابر صاحب نہیں بلکہ عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ اپنی جنگ کو اکبر ایس بابر نے ایک مختلف مقصد کے تحت لڑاجبکہ اس جنگ سے نون لیگ اور دیگر جماعتوں نے خاص مقاصد کے تحت خاص امیدیں وابستہ کر لیں۔یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ قانونی طور پر اس کا صرف ایک مرحلہ طے ہوا ہے ۔پہلا مرحلہ طے ہونے کے بعد اس قانونی جنگ کے مدعی اور مدعاالیہ کی طرح حکومت پاکستان بھی ایک پارٹی بن چکی ہے۔ اس قانونی جنگ کے آئندہ مراحل طے ہونے میں کتنا وقت لگے گا ، ان مرحلوں کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا اور تمام پارٹیوں کو عدالتوں کی راہداریوں میںمزید کتنا چلنا پڑے گا، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پہلا مرحلہ طے ہونے پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے فیصلے سے مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتوں کی امیدیں چاہے پوری ہوئی ہوں یا نہ ہوئی ہوں مگر اکبر ایس بابر اور عمران خان کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں کے بعد جو مجادلہ شروع ہو ا تھا اس میں اخلاقی، عملی اور قانونی فتح اکبر ایس بابر کی ہوئی ہے ۔
اکبر ایس بابر کے حوالے سے اپنی اولین رائے کے متعلق یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان سمیت جن لوگوں نے بھی عمران خان کی قیادت میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی سے پاکستان میں منصفانہ سماج کے قیام اور مثبت سیاسی و معاشی تبدیلیوں کی امیدیں وابستہ کی تھیں ، ان کی اکثریت کی نیت پر شبہ نہ ہونے کے باوجود کبھی بھی ذہن
میں ایسا خیال نہیں آیا تھا کہ یہ اپنے مقصد کامیاب ہوپائیں گے ۔ ایسا سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی پشت پناہی وہ شخص کر رہا تھا جس نے ملک اور اس کے عوام کی فلاح بہبود نہیں بلکہ کچھ فرسودہ نظریات کے فروغ کے لیے اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر نوزائیدہ جمہوریت کا گلاگھوٹنے کی کوشش کی اور بعد ازاں اس جمہوری نظام کی رگوں میں مہران بنک سکینڈل کا زہر گھول دیا۔عمران خان نے تو شوکت خاتم ہسپتال بنانے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم کا آغاز لاہور سے کیا تھا مگر اس کے بعد حمید گل کی وساطت سے اس کام کی ذمہ داری پاسبان نامی نیم مذہبی تنظیم نے عمران خان کو کندھوں پر اٹھا کر اپنے سرلے لی تھی۔ عمران خان کو سیاسی میدان میں اتارنے کے لیے اکبر ایس بابر جیسے لوگوں سے رجوع تو شاید بہت بعد میں کیا گیا مگر اس پہلے اس مقصد کے لیے عبدالستار ایدھی کو اغوا کرنے کی سازش تیار کی گئی۔ اس پس منظر کی وجہ سے اکبر ایس بابر جیسے لوگوں پریہ حیرانی ہوئی تھی کہ نیک نیت ہونے کے باوجود انہوں حمید گل اور عمران خان کی جوڑی سے کیسے امیدیں وابستہ کر لیں کہ ان کا مقصد ملک میں لوٹ کھسوٹ سے پاک مبنی بر انصاف معاشرے کا قیام ہو سکتا ہے ۔
اکبر ایس بابر کے متعلق دوسری رائے یہ ہے کہ اپنی امیدوں کے برعکس انہوں نے جب دھوکہ کھایا تو اس کے بعد وہ اپنے کئی دیگر ساتھیوں کی طرح چپ سادھ کر گھر میں نہیں بیٹھے بلکہ انتہائی جرأت کے ساتھ ایک ایسی حقیقت دنیا کے سامنے لے کر آئے جس کے آشکار ہونے میں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ اکبر ایس بابر اس بات پر خراج تحسین کے مستحق ہیں جس شخص کا دبائو یہاں حکومتیں اور بڑے بڑے ادارے برداشت نہیں کرپاتے اس کے دبائو کے سامنے وہ بے خوف ہو کر ڈٹے رہے۔ فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد جوحقائق سامنے آچکے ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جو امیدیں کبھی اکبر ایس بابر نے عمران خان اور پی ٹی آئی سے وابستہ کی تھیں کیا ایسی امیدیںابھی تک پالتے رہنے والوں کو حقیقت پسند یا انصاف پسند تصور کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button