ColumnNasir Sherazi

صرف چوبیس گھنٹے(3) .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

ملک میں تصوراتی انقلاب کا ڈنکا بج رہا ہے، راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہے، خلیفہ پاکستان نے خاکسار کی حوصلہ افزائی کے لیے بھرے مجمع میں اس کے لیے کلمہ خیرکہا، یوں اس کا سہرا مرے سر باندھنے کی پیش کش کی جسے میں نے قبول کرنا مناسب نہ سمجھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے خدشہ تھا کہ سہرا میرے سر باندھ کر گھوڑی وہ خود چڑھ جائے گا۔ پھر ایسا سہرا باندھنے کا کیا فائدہ، جہاں آپ سہرا باندھے بیٹھے رہیں گھوڑی کوئی اور چڑھ جائے اور وہاں’’ ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ گانے والیاں بھی نہ ہوں، ویسے آج کل سب کچھ نہایت خاموشی سے ہوتا ہے، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، خبر بھی اسی وقت باہر نکلتی ہے جب شوار کو پشت سے زمین پر پٹخ دینے کی خبرگھوڑی خود دے اور سوار کسی ویڈیو کلپ میں ہاتھ ملتا کپڑے جھاڑتا سنبھالتا نظر آئے، اب کسی کو ویر بنانے یا کہنے کا کلچر بھی نہیں رہا، بات یار سے شروع ہوتی ہے، یاری اس وقت تک چلتی ہے جب تک جیب میں مال موجود رہتا ہے، کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن ذکر پھر کبھی سہی، اس وقت تو میں ایک مشکل سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہوں، مشکل یہ ہے کہ یہود و ہندو بالخصوص امریکہ نے مجھے اپنا دشمن نمبر ون ڈیکلیر کردیا ہے، ان کے مطابق میں ان کے عالمی ایجنڈے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا ہوں اور پاکستان میں عظیم انقلاب اور اس کے خدوخال سنوار کر میں نے جرم ِ عظیم کیا ہے، اب خطرہ ہے کہ سی بھی وقت امریکی میرینز مجھے یہاں سے اغوا کرنے کے لیے آپریشن کرسکتے ہیں، مجھے آج زندگی میں پہلی مرتبہ متعدد بیگمات اور نصف درجن رہائش گاہوں کی افادیت کا اندازہ ہوا ہے،

مجھے آج یہ سہولت میسر ہوتی تو میری پریشانی لمحوں میں ختم ہوجاتی، میں اعلان کرتا کہ میں آج رات ڈیفنس میں گذاروں گا لیکن میں چپکے سے کینٹ چلاجاتا، کبھی میں کہتا کہ رات گارڈن ٹائون گذاروں گا، نصف شب اٹھ کر ماڈل ٹائون والے گھر پہنچ جاتا، یوں میں طویل عرصہ تک امریکیوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیگمات کو بھی جل دیتا رہتا، امریکی میرے ایک گھر پر ریڈ کرتے تو مجھے وہاں نہ پاکر بے حد پریشان ہوتے ، اسی پریشانی میں وہ اپنے قیمتی ہیلی کاپٹر سے ہاتھ دھوبیٹھتے، پھر دوسرے اوراسی طرح تیسرے ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے کے بعد وہ میرا پیچھا چھوڑ دیتے، اسامہ بن لادن صرف اسی وجہ سے پکڑا گیا تھا کہ بیویاں تو اس کی بہت تھیں لیکن گھر ایک تھا پس امریکی آئے اور پہلے ہی ہلے میں انہوں نے ہدف حاصل کرلیا، میں امریکیوں سے نہیں ڈرتا، مجھے ڈر اپنے ہمسایوں سے لگتا ہے کہ امریکی میرینز پہنچ جائیں، میرے تمام ہمسائے سوتے رہ جائیں اور وہ مجھے لیکر چلتے بنیں، مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ مجھے امریکہ لے جائیں تو مکمل پروٹوکول دیں، سمندر برد ہونا مجھے پسند نہیں،
خیر کوئی بات  نہیں ، خلیفہ پاکستان نے اتنا بڑا کریڈٹ دیا ہے تو اس کی لاج تو رکھنا پڑے گی، ملک میں مکمل انقلاب کے بعد سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کا کام ٹھپ ہوگیا ہے، اس نظام میں اسمبلیوں کی گنجائش ہے نہ سیاسی جماعتوں کی، پسند متعدد قومی سطح کے سیاسی راہنما مجھ سے دھڑا دھڑ رابطے کررہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ میں خلیفہ کا قریبی ہوں، میں اِسے جو کہوں گا وہ اس پر عمل کریں گے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، میں دنیا دار آدمی ہوں جبکہ خلیفہ دین دار ہوچکا ہے، نئے نظام میں پرچی سسٹم ختم ہوچکا ہے لیکن پرچی کے خواہش مندوں کا میرے گھر تانتا بندھا ہے، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان تشریف لائے اور کہنے لگے کہ نئے نظام میں گورنر تو لگانے ہیں، مجھے پنجاب کا گورنر لگوادیں، میں نے عرض کی، آپ تو شکل سے ہی گورنر نہیں لگتے بلکہ وزیر خارجہ لگتے ہیں، پوچھنے لگے وہ کیسے ، میں نے کہا کہ گورنر اس طرح لفظ چبا چبا کر نہیں بولتا جیسے آپ بولتے ہیں، کہنے لگے میں اپنا سٹائل تبدیل کرلوں گا، میں نے انہیں حتمی جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انسان کچھ تبدیل نہیں کرسکتا ماسوائے بیوی کے، آپ تو اتنے برسوں میں یہ ایک چھوٹا ساکام بھی نہیں کرسکے، وہ نامید ہوکر چلے گئے، اسی علاقے سے ایک اور سیاست دان تشریف لائے، اپنی تعلیم و تجربہ بیان کرتے ہوئے کہنے لگے، میری تعلیم تو کچھ زیادہ نہیں ہے البتہ تجربہ بہت زیادہ ہے،
انہوں نے فخریہ بتایا کہ وہ چار بیویاں تبدیل کرچکے ہیں اور ہر تبدیلی سے قبل انہوں نے بیوی کو پھینٹی بھی لگائی، مزید برآں وہ قریباً پچاس برس قبل پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے مختلف مافیاز کو نتھ ڈال رکھی تھی، میں نے بغور ان کی باتیں سنیں اور پوچھا آج کل کیا مشاغل ہیں، فرمانے لگے کہ آج کل اپنی بھینسوں کا دودھ دوہتا ہوں اور اپنے پالتو کتوں کے ساتھ کھیلتا ہوں میں نے بصد ادب گذارش کی کہ آپ کے تمام شوق آئوٹ ڈیٹڈ ہیں، آپ اب ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ نہیں رہے لہٰذا جتنی زندگی باقی ہے، بھینسوں کا دودھ نکالیں، جی بھر کے پئیں لیکن کتوں سے کھیلنے کی بجائے یہ وقت کسی رفاہی کام کو دیں، انہوں نے برا سا منہ بنایا اور جاتے جاتے کہنے لگے شاہ جی! بہت شکریہ، آپ نے مجھے وقت دیا، میں اپنے باغوں سے اترے ہوئے آموں کے درجن بھر کریٹ آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں، میں نے بصد شکریہ ان کا تحفہ قبول کیا اور انہیں تاکید کی کہ جونہی چھوٹا چونسہ تیار ہوجائے اس کے ہمراہ دوبارہ حاضر ہوں،
میری زبان سے یہ سن کر ان کا چہرہ کھل اٹھا، بولے شاہ جی! اس کا مطلب ہے میں کچھ امید رکھوں ، میں نے انہیں کہا جی بالکل امید پر دنیا قائم ہے، درجنوں سیاست دان مجھ سے وقت ملنے کے منتظر ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ مجھے سب سے پہلے مریم نوازشریف سے رابطہ کرنا چاہیے، اس وت ملک بھر میں وہ واحد شخصیت ہیں جو نیو ریاست مدینہ میں خواتین ونگ کی سربراہی کے لائق ہیں، اسی طرح جناب نوازشریف اگر وزیر تجارت بن جائیں تو اس کا ملک کو بہت فائدہ ہوگا، نوازشریف صاحب کہہ سکتے ہیں کہ میں تین مرتبہ اس ملک کا وزیر اعظم رہا ہوں اب وزیر تجارت کیسے بن جائوں تو میں ان سے کہوں گا کہ جناب آپ پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں یہ عہدہ پاکستان کا نہیں بلکہ اس سے کہیں بہت آگے کا ہے، جناب شہبازشریف کی ذاتی رفتار گفتار کے نظر انہیں ریلویز، سول ایوی ایشن و موٹر ویزکا وزیر بنادیا جائے تو سب کی رفتار تیز تر ہوجائے گی، آصف علی زرداری صاحب کامیاب وزیر خارجہ بن سکتے ہیں ان کی اصل طاقت ان کی مسکراہٹ ہے، جو ہمیشہ چہرے پر موجود رہتی ہے، ملک و قوم کو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب اور ایوان خوب چلایا ہے، انہیں مجلس شوریٰ کا سربراہ بناکر ان کی صلاحیتوں سےفائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ چودھری شجاعت حسین جیسی شخصیت ملک بھر میں موجود نہیں، ہر کام شروع کرنے سے قبل ہر شخص پر واجب ہو کہ وہ ان کی دعائیں لے، اس کے بعد پھر کوئی کام شروع کرے، اللہ تعالیٰ ایسے نیک لوگوں کی دعائیں جلد سنتا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان دو ایسی شخصیات ہیں جنہیں ضائع کیاگیا، ان کا میرٹ ہی ان کے راستے کا ڈی میرٹ بن گیا، دونوں نے اس زمانے میں سب سے زیادہ ٹیکس دیا جب ہرطرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا، ایک بہترین وزیر خوراک دوسرا وزیرٹرانسپورٹ، یعنی نقل و حمل کا وزیر بنادیا جائے تو ملک کے دو بڑے مسئلے حل ہوسکتے ہیں، ایم پی اے سعدیہ اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب دونوں کی نئی صلاحیت سامنے آئی ہے، وہ ہاتھ دیکھنے اور دکھانے کے ماہر ہیں، دونوں کو اس حوالے سے ذمہ داری دے کر اہم کام لیا جاسکتا ہے، میں نے اس حوالے سے ابھی بہت ہوم ورک کرنا ہے،
اسلام آباد سے خلیفہ پاکستان کی کال آئی ہے کہ فوراً پہنچو پٹرول مہنگا ہونے کے سبب اب گاڑی پر جانا بجٹ سے باہر ہے، میں نے زمانہ طالب علمی میں استعمال ہونے والی اپنی موٹر سائیکل نکال کر اسے تیار کیا ہے، ایک ٹرانسپورٹر دوست، مالک نیازی ٹرانسپورٹ سے درخواست کی ہے کہ میں موٹر سائیکل اس کی بس کے پیچھے ایک رسی سے باندھ لوں، اس نے بخوشی اجازت دے دی ہے، میں اسلام آبادجارہا ہوں، واپسی تک خدا حافظ، چوبیس گھنٹے میں کوئی بڑی خبر آسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button