ColumnRoshan Lal

پنجاب کے سیاسی بکھیڑے .. روشن لعل

روشن لعل

ویسے تو اس وقت پوراپاکستان ہی سیاسی اضطراب کا شکار نظر آرہا ہے مگر جو سیاسی بکھیڑے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں ہیں وہ کہیں اور دکھائی نہیں دے رہے۔ پنجاب میں تازہ ترین سیاسی افراتفری یوں رونما ہوئی کہ لاہور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوربارہ انتخاب کا حکم دیا ، اس پر پہلے تو پی ٹی آئی نے لڈیاں ڈالیں اور پھر اچانک یوٹرن لیتے ہوئے ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ کی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔ یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کے لیے 22 جولائی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے حمزہ شہباز کواس وقت تک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے دونوں امیدوار ، حمزہ شہباز اور چودھری پرویز الٰہی اس فیصلے سے مطمئن نظر آرہے ہیں کیونکہ عدالت میں جو کچھ ہوا اس پر عدم اعتماد ظاہر کرنے ان کے پاس گنجائش موجود نہیں تھی۔ ان دونوں کے برعکس ملک کے کچھ جانے مانے قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ انہیںایسا کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ جس کے تحت وہ اسے آئینی و قانونی فیصلہ قراردے سکیں۔ اس طرح کے مبصرین سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے متعلق مزید جو کچھ کہہ رہے اس کا ابلاغ کیونکہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر زور شور سے جاری ہے اس لیے اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر ہونے والے تبصروں پر کوئی بات کرنے کی بجائے جی میں یہ آرہا ہے کہ کیوں نہ یہاں عدالتوں کے کچھ ایسے سابقہ فیصلوں کا ذکر کر دیا جائے جن کے متعلق قانونی ماہرین خاص رائے رکھتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جو حالیہ فیصلہ دیا ،اسے دیکھتے ہوئے جن سابقہ فیصلوں کا ذکر کرنے کو دل کر رہا ہے، ان میں سے ایک  اسلام آباد ہائیکورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں یوسف رضا گیلانی کی درخواست کو رد کر دیا گیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کو جس طرح جان بوجھ کر مسترد کرتے ہوئے صادق سنجرانی کو کامیاب قرار دیاگیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی یہ درخواست لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ گئے تھے کہ جس طرح سے ان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کو مسترد کیا گیا وہ مبنی بر انصاف نہیں تھا ، کسی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کو اس طرح مسترد کرنے کی کیونکہ یہاں کوئی مثال موجود نہیں
ہے،لہٰذا عدالت اپنا کردار ادا کرتے ہوئے صادق سنجرائی کی کامیابی کو کالعدم قرار دے۔ یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بنچ اور پھر ڈویژن بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ عدالتوں کو کیونکہ پارلیمنٹ میں ہونے والی کاروائی میں مداخلت کا کوئی اختیارنہیں ہے اس لیے ان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی یہ درخواست ابھی تک زیر التوا ہے۔ واضح رہے کہ یوسف رضا گیلانی کا جو مقدمہ ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس کا آغاز مارچ 2021 میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوا تھا۔
جس دوسرے مقدمے کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے دنیا اسے نصرت بھٹو کیس کے نام سے جانتی ہے۔ 5 جولائی کے دن کو تو یوم سیا ہ کہا ہی جاتا ہے مگر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب یہ بھی ہے کہ جس مارشل لا کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے لوگ کبھی اس کی کھلے لفظوں حمایت کرنے کی جرات نہیں کرتے اسے ضیا دور میں عدلیہ نے جائز قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کا سیاق و سباق یہ ہے کہ 17ستمبر 1977 کو مارشل لا ضابطہ 12 کے تحت ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے 10 ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے نے 20 ستمبر 1977 کو اس گرفتاری سمیت مارشل لا کے نفاذ کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ۔
درخواست دائر ہونے پر یہ ہوا کہ چیف جسٹس یعقوب علی خان کو سبکدوش کرکے شیخ انوارلحق کو ان کی جگہ نیا چیف جسٹس بنادیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ کسی آمر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کی حکومت بزور طاقت ختم کر دے لہذا نہ صرف ضیا الحق کے مارشل لاکو خلاف آئین عمل قراردیا جائے بلکہ اس کے عمل کی بنا پر اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری مقدمہ بھی قائم کیا جائے۔ مارشل لا حکومت کے وکیلوں اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ نے اپنے دلائل میں بیگم نصرت بھٹو کی طرف سے مارشل لا کے نفاذ پر اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں کہا تھا کہ بھٹو کی حکومت دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی لہذا اسے عوام کی منتخب حکومت تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ان وکلا نے یہ بھی کہا کہ قومی اتحاد کے پاس بھٹو کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے اور سڑکوں پر آنے کا جواز موجود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے اس تحریک کو ختم کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھالہذا اگر ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت ختم کر کے ملک کو خانہ جنگی سے بچایا ہے تویہ آئین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اٹھایا گیا قدم تھا ۔ اس وقت کی عدالت نے اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے نصرت بھٹو کی درخواست کورد کر دیاتھا۔ آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق ضیاالحق کی طرف سے مارشل لا کا نفاذ واضح طور پر آئین شکنی اور ملک سے غداری تھا مگر عدالت نے مارشل لا حکومت کے وکیلوں کے مفروضوں کو دلائل تسلیم کرتے ہوئے حسب روایت محض نظریہ ضرورت کے تحت نصرت بھٹو کے خلاف اپنا فیصلہ سنادیا۔
جن سابقہ فیصلوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان کا سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے سے صرف اس حد تک تعلق ہے کہ ماہرین قانون کے مطابق حالیہ فیصلے کی طرح مذکورہ سابقہ فیصلے بھی قانونی بنیادوں کے بغیر استوار کیے گئے تھے۔ قانونی ماہرین کی عدالتی فیصلوں پر دی گئیرائے سے قطع نظر اگر صرف پنجاب کی حالیہ  سیاسی افراتفری کی بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اب 22 جولائی کو ہی پتہ چلے گا کہ پنجاب کی پگ چوہدری پرویز الٰہی کے سر پر رکھی جائے گی یا حمزہ شہباز ہی وزیر اعلٰی کی کرسی پر براجمان رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں حمزہ شہباز یا پرویز الٰہی میں سے جس کی بھی ہار یا جیت ہو، دونوں صورتوں میں یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ پنجاب میں موجود سیاسی بکھیڑے ختم ہوجائیں گے۔ جب تک یہ بکھیڑے موجود رہیں گے ، انہیں حل کرنے کے لیے عدالتوں میں گہما گہمی جاری رہے گی اور عدالتوں سے جو کچھ بھی برآمد ہو گا اس پر ماہرین قانون بھی اپنے خاص تبصرے کرتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button