Column

اقتدار یا کانٹوں کا ہار کاشف ….. بشیر خان

کاشف بشیر خان
موجودہ تبدیلی حکومت میرے دل و دماغ کو ماضی کے متحدہ پاکستان میں لے گئی۔ 1970 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور اس وقت کے صدر پاکستان آغا محمد یحییٰ خان کے لیے حوصلہ افزا نہیں تھے۔صدر پاکستان کو اس وقت کے آئی بی کے چیف رضوی نے بارہا رپورٹ کرکے انہیں غلط فہمی میں ڈالا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں ملے گی اور آغا محمد یحییٰ خان ان انتخابات کے بعد بھی اس منقسم نتائج کے باعث مستقبل میں بھی صدر پاکستان ہی رہیں گے لیکن جب انتخابات کا نتیجہ آیا تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 182 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی اور کسی اور بھی جماعت کو وہاں سے کامیابی نہ ملی ۔ مغربی پاکستان میں 82 سیٹوں کے ساتھ پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ بحیثیت اکثریتی سیاسی جماعت حق حکمرانی تو عوامی لیگ کا تھا لیکن انہیں اقتدار سونپنے میں بد نیتی دکھائی گئی(اس میں سالمیت کے تناظر میں کچھ وجوہات بھی تھیں)جس کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان سہنا پڑا۔ دنیا میں واحد واقعی رونما ہوا جس میں کسی ملک کا اکثریتی حصہ اقلیتی حصہ سے علیحدہ ہوا۔ آج سانحہ مشرقی پاکستان کو 51 برس بیت چکے لیکن ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما وہیں کھڑے ہیں بلکہ اگر سچ لکھیں تو اخلاقی، تہذیبی اور ایمانداری میں بہت نچلی سطح پر جا چکے ہیں۔یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے پچھلے 50 سال میں اقتدار میں آ کر ملک و قوم کی دولت لوٹنے کا چلن رہا اور بدقسمتی سے ایسا مکروہ کام کرنے والے ہی آج ملک و قوم کے رہبر بنےہوئے ہیں۔سانحہ مشرقی پاکستان بارے لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ ہوس اقتدار اور حق دار کو اس کے حق سے محروم کرنے کے نتائج نہایت بھیانک نکلا کرتے ہیں۔
2018 میں انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت نسبتاً ایک کمزور حکومت تھی جو 6 ووٹوں کے فرق سے کھڑی تھی۔یہ ایک لولی لنگڑی حکومت جس کے پاس پارلیمنٹ میں قانون سازی کا اختیار تھا اور نہ ہی صوبہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں اس جماعت کی مرکزی حکومت سے تعاون کرتی تھیں۔ احتساب کے نعرے پر برسراقتدار آنے والی حکومت بیوروکریسی اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے عدم تعاون کی وجہ سے ملک و قوم کا سرمایہ لوٹنے والوں کو عبرتناک سزائیں دینے میں ناکام رہی لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی اسمبلی میں 155 ممبران قومی اسمبلی کے ساتھ تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ مارچ میں اس کے خلاف جو عدم اعتماد لایا گیا اس میں شامل 10 سے زائد سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ ہدف یعنی 172 ووٹ اکٹھے کرنے لگیں اور آخر میں بھرپور توڑ پھوڑ اور خریدوفروخت کے بعد 174 اراکین سامنے لا سکیں۔
اقلیت مختلف سیاسی جماعتوں کو اکثریت میں تبدیل کرنے کے لیے جس قسم کا بازار گرم کر کے اراکین اسمبلی کی سرعام بولیاں لگائی گئیں وہ نہایت
شرمناک تو تھا ہی لیکن سندھ ہائوس،پارلیمنٹ لاجز اور پھر میریٹ ہوٹل میں سجی اراکین اسمبلی کی ان مکروہ منڈیوں پر کسی بھی سرکاری ادارے یا انصاف فراہم کرنے والے ادارے کا کوئی بھی ایکشن نہ لینا زیادہ افسوسناک تھا۔کراچی کی ایک لسانی جماعت کے سات اراکین، قاف لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور دوسرے اراکین اسمبلی روزانہ صبح، دوپہر،شام آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمان،شہباز شریف اور عمران خان سے سرعام مل کر اپنا بھاؤ تاؤ کرتے رہے لیکن ادارے خاموشی سے دیکھتے رہے۔ عوام کی بے بسی بھی دیدنی تھی،لیکن عوام اپنے حقوق کی پاسداری کرنے سے لاچار تھے۔خیرنو اپریل کو بیرونی مدد و فنڈنگ کے الزامات کے باوجود اکثریتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔میں مبینہ خط بارے کچھ نہیں زیادہ لکھوں گا کیونکہ قومی سکیورٹی کمیٹی جس میں مسلح افواج کے اعلیٰ حکام،کابینہ کے اراکین اور وزارت دفاع و خارجہ کے اعلیٰ حکام شامل تھے اس خط کو دیکھ کر امریکہ کے ناظم الامور سے شدید احتجاج کا فیصلہ کر چکے تھے اور پھر قائم مقام امریکی ناظم الامور کو دفتر خارجہ بلا کر اس سے احتجاج بھی کیا گیا۔
ملکی سیاست اس وقت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے اور قومی اسمبلی سے قریباً 135 اراکین اب تک مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ محمود نے دوبارہ سے 88ووٹوں پر مشتمل اعتماد کا ووٹ لے کر اگلے چھ ماہ تک عدم اعتماد کی تحریک روک دی ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لا کر سیاسی بے یقینی میں بدترین اضافہ کیا جا چکا ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب تمام تر خریدوفروخت کے باوجود چودھری پرویز الٰہی کی موجودگی میں نون لیگ کے لیے مشکل ترین ہوچکا ہے اور جب بھی وزیر اعلیٰ کا چناؤ ہوتا ہے تو یہ نون لیگ کے لیے اپ سیٹ ہو سکتا ہے۔
میرے والد کے دوست سابق کسٹم افسر یعقوب اعوان نے کل ہی فون کر کے مجھے سیاسی حالات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے پنجابی میں کہا کہ پترا اقتدار استریاں(اُسترے) دا ہار ہوندا…ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت سے کسی بھی قسم کی امید رکھنی بیکار ہے، یہ اپنے کیس ختم کروانے اور نئے انتخابات کے لیے افسر شاہی میں ہیر پھیر کرنے آئے ہیں۔ خیر شہباز شریف نے عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد جو تقریر کی اس میں ان کی حکومت کی ترجیحات واضح ہو گئیں اور جہاں ایک جانب جانے والی حکومت کی ناکام پالیسیوں کا رونا رویا گیا وہاں حلف اٹھانے سے قبل ہی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا حالانکہ کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کی حکومت نے تنخواہوں میں قریباً 15فیصد اضافے کئے تھے۔ دوبارہ سے متنازعہ لیب ٹاپ سکیم کا اجراء کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی گئی۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار ڈاکٹر توقیر شاہ کو اپنا پرنسپل سیکرٹری بنانا اور ان کو 21 سے 22 گریڈ میں ترقی کے لیے بورڈ کے اجلاس کو جلد بلانے کا حکم ظاہر کر رہا ہے کہ شہباز شریف ماضی کی طرح ہی کریں گے۔
شہباز شریف کے وزیر اعظم بنتے ہی گورنر سندھ و بلوچستان کے اپنے عہدوں سے یہ کہہ کر استعفے دینا کہ وہ منی لانڈرنگ میں ملوث وزیر اعظم کے نہ تو ماتحت کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں پروٹوکول دیں گے۔ اسی طرح صدر مملکت کا بوجہ بیماری حلف وفاداری میں شرکت سے گریز اس اقلیتی حکومت کو بے وقعت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔اس سے پہلے سپیکر اسد قیصر کا بیرونی ایجنڈے پر ووٹنگ کی بجائے استعفیٰ کا فیصلہ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا ووٹنگ کو ملک کے مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے سپیکر کی سیٹ چھوڑ دینا اس حکومت اور آنے والے وزیر اعظم کی ساکھ کو روندتا دکھائی دے رہا ہے۔نیب کو ختم کرنے کی خواہش اور یہ خبر کہ شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز سعودی عرب پہنچ چکے ہیں اور شہباز شریف کے عمرہ ادائیگی کے بعد ان کے ساتھ وطن واپس آئیں گے بہت کچھ آشکار کر رہا ہے۔ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان جو انتہائی ایماندار آفیسر ہیں، کو جبری چھٹی پر بھیج کر سپیشل کورٹ میں پیش نہ ہونے سے میں سمجھتا ہوں کہ شریف فیملی بری طرح پھنس سکتی ہے۔بات اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے سے شروع ہوئی تھی۔پاکستان میں اس تبدیلی کو عوام نے بہت بری طرح مسترد کیا ہے۔عمران خان پشاور سے اپنی احتجاجی اور الیکشن کمیشن کا آغاز کرنے جا رہے ہیں اور اس پہلے ایک کال پر جیسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں پاکستانیوں نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔لگتا ہے کہ قوم جاگ چکی ہے اور عمران خان ہارنے کے بعد بھی جیتتا دکھائی دے رہا ہے۔آنے والے دن پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کی نوید دے رہے ہیں لیکن عمران خان کو اپنے کروڑوں سپورٹرز کو پاک آرمی کے خلاف کسی بھی منفی پراپیگنڈا سے سختی سے منع کرنا ہو گا کہ فوج کے خلاف منفی پراپیگنڈا کا نقصان ریاست پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان کے سپورٹرز کے لیے یہ امر ہی باعث تقویت ہونا چاہئے کہ حلف وفاداری اور وزیر اعظم ہاؤس میں گارڈ آف آنر کے وقت بھی سپہ سالار اعظم موجود نہیں تھے۔۔شاہد ان تک میرے جیسے شخص کی یہ خواہش اور التجا پہنچ گئی ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button