Column

 سیاست کا طلاطم جاری ہے …… علی حسن

علی حسن
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ابھی وزیر اعظم کا انتخابی عمل اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کی بحث اور مشورے جاری تھے۔ یہ مرحلہ کسی ایک سیاسی جماعت میں بھی مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں تو بیک وقت کئی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ اسی مرحلے میں سابق وزیر اعظم پیر کے روز ایوان میں آئے۔بعد میں ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے منتخب اراکین نے قومی اسمبلی کی اپنی اپنی نشستوں سے استعفیٰ پارٹی سربراہ کے حوالے کرنا شروع کر دیئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ لٹیروں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ عمران خان کے لیے ان کے مخالفین ’’ سلیکٹڈ‘‘ کا خطاب استعمال کرتے تھے ، پی ٹی آئی والے اپنے مخالفین کے لیے ’’امپورٹیڈ‘‘ کا خطاب استعمال کررہے ہیں۔ عمران خان کو کیوں یاد نہیں کہ یہ ’’لٹیرے‘‘گزشتہ ساڑھے تین سال سے ان کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں جب ان کی حکومت تھی۔ پارٹی میں ایک دھڑا ایسا بھی ہے جو استعفیٰ دینے کے حق میں نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں بیٹھ کر ہی ان کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن عمران خان نے اتوار کی رات ملک کے کئی شہروں میں بیک وقت بہت بڑے اجتماع دیکھ کر اہم اور حتمی فیصلہ کر لیا ہوگا۔ عام طور پر پاکستان میں اقتدار سے علیحدہ ہونے والی سیاسی جماعت کے حق میں فوری طور پر ایسے جلوس اور جلسے نہیں ہوتے ۔ تحریک انصاف پہلی جماعت ہوگی جسے اقتدار سے علیحدگی کے فوری بعد ایسے پذیرائی میسر ہوئی ہے۔ ان جلوسوں میں اکثریت درمیانہ درجے کے شہریوں کی تھی اور وہی معاشرے کی جان ہوا کرتے ہیں۔ حکمرانی زمینداروں اور صنعت کاروں کو نہیں دی جانی چاہیے۔ سنگاپور کو سنگار پور جیسا ملک بنانے والے آنجہانی رہنما لی تو یہی کہا کرتے تھے ۔ یہ مشورہ تو انہوں نے نواز شریف کو بھی دیا تھا۔ عمران خان کی صورت میں آئیڈیل رہنما تھا لیکن وہ قوم کو وہ کچھ نہیں دے سکے جس کی قوم ان سے امید رکھتی تھی۔ تحریک انصاف کے امیدوار شاہ محمود قریشی شہباز شریف کے مقابلے میں وزارت اعظمیٰ کے امیدوار تھے۔ جب اراکین کو مستعفی ہی ہونا تھا تو انہیں کیوں امیدوار نامزد کیا گیا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان اسمبلی سے مستعفی ہو کر سیاسی غلطی کر رہے ہوں گے اگر چہ تحریک انصاف کے اراکین کے مستعفی ہونے کی وجہ سے شہباز شریف کی حکومت کام نہیں کر سکے گی تو فیصلہ درست قرار پائے گا لیکن اگر حکومت موجود رہے گی تو ضمنی انتخابات کر اکے اپنا کام کرے گی۔ عمران خان بھی غالباً اب نواز شریف کی طرح فوری انتخابات کے انعقاد کے حق میں ہیں۔ تحریک انصاف بھی وہی غلطی کر رہی ہے جو عام طور پر اکثر ممالک میں سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ پوری جماعت فرد واحد کے گرد گھومتی ہے۔ پارٹی کو عملی طور پر کوئی قابل عمل ڈھانچہ نہیں بنایا جاتا ہے۔ ابھی بھی ان کے پاس وقت ہے کہ اپنی پارٹی کو ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کریں اور پارٹی میں قابل قبول متبادل قیادتیں تیار کریں۔ یہ پاکستان کی سیاست کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ سیاست کو مورثی سیاست بنانے سے ناکام بنانا ہے۔ مورثی سیاست میں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا کیا حشر ہو رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اب چاہیے کہ وہ قوم کو یہ بتائیں کہ انہیں عمران خان حکومت سے کیا شکایات تھیں۔ اگر مہنگائی وجہ مخالفت تھی اب شہبازشریف اس پر قابو پالیںیا عمران خان حکومت کے قیام کے وقت جو قیمتیں تھیں ان پر لے آئیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ  انتخابات ہماری مرضی سے ہوں گے، ہمارا مقصد قوم کو اس شخص (عمران خان) سے نجات دلانا تھا۔ آنے والی حکومت کی ترجیح معیشت ہے، ای وی ایم کا نظام پوری دنیا میں ناکام ہے۔اگر بدعنوانیوں کے مقدمات بنے ، حراستوں میں رکھا گیا، نیب تحقیقات کرتی رہی تو ایسا تو ہونا ہی تھا۔ عمران خان سے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ نیب کیوں نہیں مقدمات کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکی۔ کئی مقدمات جو احتساب عدالتوں میں دائر کئے گئے انہیں عدالتوں نے نامکمل قرار دے کر واپس کردیا۔بعض ثبوتوں کی غیر موجودگی کے باعث خارج کر دیے گئے۔ شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ جو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔پر پیر کے روز فرد جرم عائد ہونا تھی، شہباز شریف کے وکیل نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ چونکہ شہباز شریف وزارت اعظمیٰ کا انتخاب لڑ رہے ہیں اس لیے کوئی اور تاریخ دی جائے۔ آئندہ تاریخ کو وہ وزیر اعظم ہوں گے تو کس جج کی جرأت ہوگی کہ انہیں طلب کرے۔ ایف آئی اے میں لاہور ریجن کے ڈائریکٹر محمد رضوان پہلے ہی رخصت پر چلے گئے ہیں۔ رضوان نے ہی شہباز شریف کے خلاف مقدمات تیار کئے تھے۔ یہ بد عنوانیوں کے الزامات کے پلندے کیوں تیار کئے گئے تھے ۔ اگر یہ سب کچھ کردار کشی تھی تو نہایت افسوس ناک تھی اور اگر نیب سمجھتی تھی کہ مقدمات درست تھے تو ثبوت کیوں نہیں پیش کئے جا سکے۔ اب کیوں کر ممکن ہوگا کہ بدعنوانیوں میں مبینہ ملوث افراد کے خلاف درج مقدمات میں کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔
شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کی تشکیل کے لیے اتحادیوں سے مشاورت کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ نون کے 12 وزراء اور پیپلز پارٹی کے7وزراء ہوں گے، بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنائے جانے کا امکان ہے۔جے یو آئی ف کو 4، ایم کیو ایم کو 2 ، بی این پی مینگل اوراے این پی کو ایک ایک وزارت دی جائے گی۔ جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک ایک وزارت دی جائے گی جبکہ محسن داوڑ، اسلم بھوتانی، طارق بشیر چیمہ کو بھی وفاقی کابینہ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ محسن داوڑ وہ ہی رکن قومی اسمبلی ہیں جنہوں سابق حکومت نے مختلف مقدمات میں جکڑ کر جیل میں رکھا۔ سابق حکومت کا دور،ان پریا ان کے ساتھیوں پر کیوں کڑا تھا، یہ سوچنے کا سوال ہے۔ ایم کیو ایم نے حکومت کی تبدیلی کے بعد اپنی مشاورت کے بعد حکومت میں کوئی وزارت نہ لینے پر غور شروع کردیا ہے ۔ سابقہ اپوزیشن کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں ایم کیو ایم نے کہا تھا کہ ہمارے لیے وزارت سے زیادہ عوامی مسائل کے حل کی اہمیت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button