Column

 آئین پاکستان کی جیت  …. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

کرہ ارض پر پاکستان شاید واحد ملک ہے جس کے باشندے خوشی اور غم کو زیادہ دیر تک نہیں مناتے۔ ہر دو صورت میں جلد اور فوری تبدیلی ان کی اولین ترجیح ہے۔ملکی سیاسی صورتحال میںگذشتہ چند دنوں سے کبھی خوشی کبھی غم کا راج ہے،کبھی حکومت شادیانے بجاتی نظر آتی ہے تو کبھی اپوزیشن،ہر سوڈگڈگی بجا رہی ہے،جمہور بچاری بچہ جمورہ کا کردار ادا کررہی ہے۔گو کہ جمہور کے پائوںمیں آبلے پڑے ہیںپھر بھی وہ گھنگرو باندھے چھم چھم ناچ رہی ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں بہت کچھ ٹوٹتا ہے،کبھی اعتبار توکبھی بھروسہ،کبھی کسی کا گھرتوکبھی ملک کا ایک بازو۔وعدے وعید کا ٹوٹنا،یعنی جھوٹے وعدوں سے بہلا کر کام نکلوانا تو ہمارے ہاں سیاست کہلاتا ہے۔آج تک یہی بتایا گیا ہے کہ آئین سب سے مقدم ہے،اس کے اندر رہ کر ملک کا نظم و نسق چلانا ہوتا ہے،جو کوئی اس کے خلاف جاتا ہے وہ آئین شکن کہلاتا ہے، جس کی سزا موت ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک جس حکمران کا بھی دل کرتا ہے وہ آئین توڑتا ہے، آئین کو روندتا ہے یا آئین پر عملدرآمد کے بجائے ذاتی خواہشات کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں آئین کی پامالی اور آئین شکنی نظر آتی ہے، جہاں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے کے رویے نظر آتے ہیں، جہاں ذاتی مفادات کو آئین پر فوقیت دینے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت پاکستان میں ہر حکمران آئین کو صرف اس وقت اہمیت دیتا ہے جب اسے اپنی حکومت بچانی یا بنانی ہویاپھر سیاسی مخالفین سے انتقام لینا ہو۔اگر فیصلے خلاف آئیں تو وہ گنگناتے پھرتے ہیں کہ ایسے دستور کو میں نہیںمانتا،جب کوئی فیصلہ ان کے حق میں آئے تو اسی دستور کو وہ آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں جب آئین کو عام آدمی کی فلاح و بہبود کی روشنی میں دیکھا گیا ہویا عام آدمی کے حقوق کے حوالے سے بحث کی گئی ہو، عام آدمی کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی بہت چیزیں ہیں لیکن آپ کو ہمیشہ آئینی لڑائیاں صرف حکومت کے قیام اور خاتمے کے وقت ہی نظر آئیں گی۔ کوئی آئین کا سہارا لے کر غریبوں کا خون چوستا رہتا ہے، کوئی آئین کی تکریم بیان کرتے کرتے اصل ذمہ داریاں بھول جاتا ہے، کوئی عدالتوں پر حملہ آور ہوتا ہے، کوئی اقتدار کے لیے آئینی ترامیم کرتا ہے، کوئی ایمرجنسی نافذ کرتا ہے، کوئی کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتا ہے۔ سب نے اپنی اپنی جگہ آئین شکنی ضرور کی ہے۔ ان دنوں بھی سب اسی آئین پر اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں جسے سب اپنے اپنے وقت میں ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے اس بات کو بھول جائیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین اور قانون کے مطابق ہے یا نہیں، آپ اس بات کو بھی پس پشت ڈال دیں کہ کون آرٹیکل پانچ کی زد میں آتا ہے اور کون آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتا ہے۔ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے جب فیصلہ دے دیا تو اس پر من عن عمل کرنا تمام سٹیک ہولڈرز کا فرض ہے لیکن پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح تحریک عدم اعتماد کے دوران اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ کس طرح اراکینِ پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کر کے پرانی سیاست کو ایک دفعہ پھر زندہ کیا گیا۔ چھانگا مانگا کی دم توڑتی سیاست میں نئی زندگی ڈال دی گئی۔ معزز اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنی بولی لگوا کر پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیے۔
محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مابین طے پانے والے میثاقِ جمہوریت میں بھی اس عمل کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی لیکن متحدہ اپوزیشن کو اقتدار کے حصول کی اتنی جلدی تھی کہ برسر عام سندھ ہائوس اور ایک مہنگے ہوٹل میں قومی نمائندوں کی منڈی لگا دی گئی، کسی نے اس کو غیر آئینی اور غیر اخلاقی نہیں سمجھا،بلکہ فخر سے میڈیا پر اس کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی ایک اہم اور متحرک شخصیت نے جہاں عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا وہاں خریدو فروخت کے عمل کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھا۔ملاقات میں موجود ایک دوست نے جب کہا کہ اپوزیشن کو تو اس سے فائدہ ہوا پھر ندامت کیسی؟ اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا کہ اِس ساری کہانی کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جو ابھی اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں میں ہیں، ان کی تربیت میں ان کے والد محترم نے خریدوفروخت کا عنصر شامل کر دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی ماضی میں اس عمل کے اثراتِ بد بھگت چکی ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری اپنا دامن اس سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ پاکستانی سیاست کے اعلیٰ ترین ایوان میں ہونے والے اس عمل نے پاکستانی معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کو گالی خیال کیا جاتا تھا لیکن اب ہر سطح کے منتخب نمائندے اپنی بولی لگوانے میں خوشی محسوس کریں گے۔ اب اس امر کی پیش گوئی کیسے کی جا سکتی ہے کہ کسی یونین کونسل یا میونسپل کمیٹی کا چیئرمین اخلاقی طور پر اسی جماعت یا گروپ سے وابستہ رہے جس کے نام پر اس نے ووٹ حاصل کیے تھے کیونکہ اس کے سامنے تو اراکینِ قومی اسمبلی کی مثال موجود ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے اس عمل کی وجہ سے پاکستانی سیاسی اخلاقیات کی دیوار میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ واویلا اب بے معنی ہے کہ حکومت نے غیر آئینی اقدامات کیے۔ جب ایک طرف سے تمام اخلاقی اور سیاسی اقدار بلڈوز کی جا رہی ہوں تو حکومت کی طرف سے فیئر پلے کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے گرد بھی وہی لوگ ہیں جو متحدہ اپوزیشن کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت بھی اسی جگہ ہوئی جہاں اپوزیشن نے تربیت حاصل کی۔ حکومت بچانے کے لیے عمران خان نے وہ تمام حربے استعمال کیے جو وہ کر سکتے تھے۔
ہم ان سے توقع کر رہے تھے کہ وہ خود کو پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں مختلف سیاست دان ثابت کریں گے۔مگر افسوس وہ بھی روایتی سیاست کا شکار ہو گئے یا روایتی سیاستدانوں نے انہیں گھیر لیااور میدان مار لیا۔ اس تمام تر تصادم میں ایک بات سمجھ میں آگئی کہ اگر ہمارے انصاف کے ادارے متحرک ہو جائیں تو بہت سے آئین شکن اقدامات کو فی الفور روکا جا سکتا ہے۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے بروز اتوار اپنی عدالت کے تالے کھول دیے، یہ الگ بات کہ اُنہی عدالتوں میں سزائے موت کے قیدی اپیل لگنے کے انتظار میں زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ بہر حال بروقت انصاف سب کے لیے ہونا بھی اسی آئین میں درج ہے۔ اور اِس ملک کے 22 کروڑ عوام کے سینے میں یہ بات خنجر کی طرح پیوست ہے کہ ان کے مقدمات لیفٹ اوور ہوتے ہیں جبکہ اشرفیہ کے لیے ضابطے نرم کر دیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری معزز عدالتوں کو عام مقدمات میں بھی اسی طرح کی تیز رفتاری دکھانا ہوگی جیسی سیاسی مقدمات میں نظر آتی ہے۔ ورنہ اس نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوکر رہ جائے گا جو کسی صورت میں سود مند نہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button