Columnمحمد مبشر انوار

غیر آئینی اقدام ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی کارروائی پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کا فیصلہ سنا یا یوں یقینی طور پرفیصلہ آئین اور قانون کی فتح ہے۔ وجہ موجود تھی ،کسی بھی صورت قبل از اقدام عدالتیں متحرک نہیں ہو سکتیں لہٰذا سماعت ہوئی اور ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیاگیا ۔ اپوزیشن اس فیصلے پر یقینی طور پر نہ صرف خوش ہے بلکہ اس نے سکون کا سانس لیا ہے کہ جو سرپرائز عمران خان نے انہیں دیا تھا وہ نہ صرف الٹ ہو چکا ہے بلکہ معاملات تین مارچ کی سطح پر آ چکے ہیں۔ تحریر کی اشاعت تک یقینی طور پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو چکی ہو گی اور عمران خان عدم اعتماد کا جھومر ماتھے پر سجائے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر براجمان ہوں گے بشرطیکہ ان کی پٹاری میں کوئی اور سرپرائز نہ ہوا۔ بات یہیں پر ختم ہو جائے گی یا عمران خان انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ایک نیا بحران کھڑا کریں گے؟اس کا آپشن بہرطور عمران خان کے پاس نہ صرف موجود ہے بلکہ شنید ہے کہ ان کے پاس اپنے ممبران اسمبلی کے استعفے بھی موجود ہیں،جو یقینی طور پر ایسے وقت کے لیے ہی لیے جاتے ہیں لیکن کیا استعفیٰ دیتے وقت ،واقعتاً ممکن ہے کہ بحران پیدا ہو جائے اور نئی حکومت اس سے نپٹ نہ سکے؟نئی بننے والی حکومت کے پاس وقت کی کوئی قید نہیں ہو گی کہ ابھی اسمبلیوں کی مدت میں قریباً ڈیڑھ سال باقی ہے اور ضمنی انتخابات کا آپشن بھی موجود ہو گا،تو پھر بحران کی کیا اہمیت یا کیفیت ہوگی؟سپریم کورٹ کے فیصلے، جس کا بڑی شدت سے پاکستانیوں کو انتظار تھا بالخصوص ہماری سیاسی قیادت اس فیصلے کی شدت سے منتظر تھی کہ اگلے کھیل کا سارا دارومدار اسی فیصلہ پر تھا۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر، مابعد ہونے والے تمام اقدامات کو بھی الٹا دیا اور اسمبلی بحال کردی ۔ نئی حکومت کے پیش نظریقیناً انتخابی اصلاحات کو معکوش کرنا ہوگا کہ ان کی موجودگی میں ان کی انتخابی معرکہ آرائی کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہو سکے گی کہ ای وی ایم کے ہوتے ہوئے جو انتخابی معرکے لڑے جاتے تھے،وہ بعینہ لڑے نہیں جا سکتے،تارکین وطن کو ووٹ کی سہولت بھی چھینی جاسکتی ہے،الیکشن کمیشن میں نئی تقرریاں ہو سکتی ہیں، جن کی چنداں ضرورت نہیں،شنید ہے کہ نیب کو ختم کیا جانا مقصود ہے، علاوہ ازیں انتخابات سے قبل اور بہی سے ’’ضروری‘‘اقدامات لیے جانے ہیں۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ صحت کارڈ،قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ثابت ہو رہے ہیں لہٰذا ان کو بھی ختم کیا جائے گا لیکن کیا ان اقدامات سے اپوزیشن انتخابی میدان مارنے میں کامیاب ہو جائیگی؟ بالخصوص اس وقت جب ان اقدامات کا براہ راست تعلق عوامی فلاح سے ہے اور اگر یہ سب سہولتیں عوام سے چھین لی گئیں تو کیا عوام پی ڈی ایم والوں کو ووٹ دے گی؟بہرکیف یہ سب سوچنا تو پی ڈی ایم کی نئی حکومت کاکام ہوگا کہ کس طرح اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہے یا وہ بھی اس ریلے میں بہہ جاتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ کسی بھی حکومت کا یوں جانا اس امر کی نوید ہے کہ اگلی باری یقینی طور پر اس جماعت کی نہیں اور اس بار جیت کا ہما مخالف سیاسی جماعتوں کے سر بیٹھنے کو تیار ہے البتہ نئی انتخابی تحریک سے قبل اس امر کا احتمال ضرور ہے کہ عمران خان عوام سے یہ سوال کرتے نظر آئیں کہ مجھے کیوں بحال کیا؟کہ نہ عدالت عظمیٰ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ،نہ ما بعد اقدامات کو برعکس کرتی اور نہ ہی تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ ہوتی اور نہ عمران خان گھر جاتے۔ لیکن خیر یہ تو اب ہو چکا اورممکنہ طور پر اگلا اقدام یہ ہوسکتا ہے کہ وہ صدارتی ریفرنس جو عدالت عظمیٰ کے سامنے زیر التوا ہے،بعد از تحریک عدم اعتماد،پی ٹی آئی کے ممبرز قومی اسمبلی کی بغاوت پر بطور سربراہ جماعت عمران خان نہ صرف ان اراکین کی رکنیت کو معطل کروانے کی کوشش کریں بلکہ عین ممکن ہے کہ اس بنیاد پر عدالت عظمیٰ سے استدعا کریں کہ چونکہ میرے ممبران اسمبلی نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے،ان کی رکنیت منسوخ کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔ اس صورت میں چونکہ جرم ہو چکا ہو گا اور عدالت پر لازم ہو گا کہ اس پر اپنا فیصلہ صادر فرمائے اور وہ فیصلہ کیا ہو گا،اس کے متعلق تو مقدمہ کی سماعت اور دلائل کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن موجودہ فیصلے کو سامنے رکھیں تو جس طرح عدالت عظمیٰ نے صرف آئین کی بالادستی کو پیش نظر رکھا ہے،اسی طرح تب بھی آئین کی بالا دستی کو ہی سامنے رکھے گی۔
گرد و پیش کے واقعات کو مد نظر رکھیں تو اس حقیقت سے قطعی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ امریکہ بہادر اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور اسے بیشتر محاذوں پر چین اور روس سخت دباؤ میں رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے پاس جو چالیں موجود ہیں ان میں سب سے اہم معاشی پابندیاں ہیں ،جن میں وہ اپنے مخالفین کو جکڑ کر اپنی بات منوا لیتا ہے تاہم اس مرتبہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور روس، یوکرین کی جنگ میں امریکہ نے روس پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اس کے جواب میں روس بجائے گھٹنے ٹیکنے کے،متوازی معاشی نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔یوں ڈالر کی عالمی حیثیت کو سخت مشکلات درپیش ہیں کہ یورپ کی بیشتر انرجی ضروریات روس پوری کر رہا ہے اور یورپ اس وقت کسی بھی صورت اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کی تیل و گیس کی رسد فقط ڈالر کی بھینٹ چڑھ جائے، لہٰذا یورپ روس سے روبل میں لین دین کی طرف مائل ہے۔پس پردہ چین کسی بھی صورت روس کی حمایت سے ہاتھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور ہر سطح پر روس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور چین کا مطمع نظر بھی یہی ہے کہ کسی طرح ڈالر کی عالمی اجارہ داری کو زک پہنچائی جائے۔ اب بات لے دے کے کمزور معاشی حیثیت کے ان ممالک تک آن پہنچی ہے کہ جو چین کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے معاشی شراکت داری میں شامل ہیںیا شراکت داری کے خواہاں یا پھر اس کو وسعت دینے کے خواہشمند ہیں۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے سامنے بھی ایسے ہی واقعات رکھے گئے اور وہ ان حقائق سے قائل بھی نظر آئے لہٰذا انہوں نے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار آئین کے آرٹیکل پانچ کو استعمال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ سے پہلے ہی خارج کردیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس پر ازخود نوٹس لے کر جن متعلقہ اداروں کو نوٹسز جاری کئے،ان سے واضح تھا کہ عدالت عظمیٰ کی نگاہیں کہاں تک ہیں اور کیوں قومی اسمبلی میں ہونے والی اس بے قاعدگی پر عدالت عظمیٰ نے فوری طور پر ازخود نوٹس لیا ہے وگرنہ عدالت عظمیٰ کو جن خدشات کا تصور تھا ،وہ ان حالات میں،خدانخواستہ حقیقت کا روپ بھی دھار سکتے تھے،یوں عدالت عظمیٰ نے فوری اقدام کرکے مزید کسی غیر آئینی اقدام کا راستہ روک دیا ۔ جہاں تک بات ہے ڈپٹی سپیکر کی غیر آئینی رولنگ کی، اس کے محرکات پر سپریم کورٹ مطمئن نہیں ہوئی یا عدالت عظمیٰ کے سامنے وہ حقائق نہیں آئے کہ جن کی موجودگی میں ڈپٹی سپیکر نے یہ رولنگ دی تھی۔ بہرکیف معاملات جو بھی ہوںاس معاملے پر کوئی تفتیش نہیں کی گئی ، یعنی اس الزام کو سربمہر کر دیا گیا ہے اور اس کی حقیقت ایک بار پھر منظر عام پر نہیں آ سکی، جس کو بہرطور پی ٹی آئی اگلے انتخابات میں کیش کروانے کی کوشش کرے گی۔ کیا تحریک انصاف اس کو کیش کروا پائے گی؟اس پر مختلف رائے ہو سکتی ہے البتہ نوشتہ دیوار سامنے ہے کہ اس فیصلے کے بعد، اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کی واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ بنیادی طور پر فیصلہ آئین کے مطابق نظر آتا ہے لیکن آرٹیکل پانچ کا اطلاق کرتے ہوئے جن محرکات کو ڈپٹی سپیکر نے مد نظر رکھا تھا، ان کو قطعی طور پر غیر آئینی بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ آرٹیکل پانچ بھی بہرطور آئین کا حصہ ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ روبہ کار آیا تھا، جس کا براہ راست تعلق بہرکیف موجودہ تحریک عدم اعتماد سے ہی تھا،تاہم عدالت عظمیٰ کی نظر میں ڈپٹی سپیکر کا یہ اقدام غیر آئینی ٹھہرا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button