ہائے! بڑی سنگین ہے ۔۔۔۔ ناصر شیرازی
برائے مہربانی حیران نہ ہوں، دنیا بھر میں جہاں جہاں بندوں کو تولنے کی بجائے شمار کیا جاتا ہے، وہاں یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے یہاں آپ دیکھ رہے ہیں۔ جو کچھ ہمارے یہاں ہورہا ہے ، یہ پہلی مرتبہ نہیں ، ہر دور میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے، زمین سے لیکر ضمیر تک سب کچھ بکتا ہے، منہ مانگی قیمت ادا کی جاتی ہے، زمین کی پیمائش کے لیے مختلف پیمانے ہیں، مرلے، کنال، ایکڑ، مربعے، فٹ، گز، سینٹی میٹر، میٹر اور بہت کچھ۔ ضمیر کی پیمائش کا کوئی پیمانہ نہیں، جو اس کی لمبائی، چوڑائی یا گولائی ماپ سکے لیکن اس کے باوجود ضمیر جب بھی خریدا یا بیچا جاتا ہے، گراں قیمت پاتا ہے۔ ضمیر کبھی بھی غریب نہیں ہوتا، عجیب ضرور ہوتا ہے، اِس کے سونے اور جاگنے کا کوئی وقت مقرر نہیں، کبھی تو یہ برسوں سویا رہتا ہے، زمانے کا سرد گرم اِس پر اثر انداز نہیں ہوتا، کبھی یہ اچانک ایسے وقت جاگ اٹھتا ہے جب اس کے جاگنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی، حیران کن بات یہ ہے کہ جاگنے کے بعد جونہی کسی طرف سے کوئی میٹھی لوری ملتی ہے، یہ پھر گہری نیند سوجاتا ہے، اِس کے سرہانے کھڑے ہوکر ڈھول پیٹتے رہیں، یہ ٹس سے مس نہیں ہوتا، ضمیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر شخص میں موجود ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ بیدار بھی ہو، اِسے عموماً خوابیدہ یا نیم خوابیدہ رہنا اچھا لگتا ہے۔ سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز افسروں کا ضمیر اُن کے کیریئر میں ایک دوبار ضرور بیدار ہوتا ہے، عالم بیداری میں اُن کا ضمیر حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے۔ ایسے کارنامے جن کا تصور عام آدمی نہیں صرف خاص آدمی ہی کرسکتا ہے، ایک حکومت کے جانے اور دوسری حکومت کے آنے کے درمیان کے عرصے میں کثیر تعداد میں لوگوں کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں جس کے لیے جانے والے ہر کام کو ضمیر کے مطابق کام کا درجہ دے دیا جاتا ہے، بیداری ضمیر کا زمانہ شروع ہوچکا ہے، اس موسم میں کئی گل کھلیں گے، کچھ کھلنے سے پہلے ہی مرجھاجائیں گے، ہر پھول دولہا کے سہرے میں جگہ نہیں پاتا کچھ پھول تو کھلتے ہی مزاروں کے لیے ہیں۔ قومی اسمبلی ٹوٹ چکی، دوبارہ جوڑنے کا حکم آبھی جائے تو ایک شگاف، ایک نشان رہ جائے گا۔ یاد رہے چاند شق ہونے کے بعد دوبارہ جڑ گیا مگر اس کے شق ہونے کا نشان ابھی بھی باقی ہے۔ زمین سے بہت دورہونے کے باوجود نظر آتا ہے۔ قومی اسمبلی کس طرح توڑی گئی تاریخ میں لکھا جائے گا۔
ہے، انتہا کیا ہوگی، سوچ کے روح کانپ جاتی ہے، انہی دانشوروں کے مطابق نواز لیگ سے محبت کرنے والوں کو پٹواری کہا جاتا ہے کہ نون لیگ کے زمانہ اقتدار میں پٹواری اور تھانیدار جلسہ گاہوں کو بھرنے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے یوتھیے کہلائے کیونکہ اِس جماعت میں نوجوانوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے، ان کے مخالفین ان کی ’’شان‘‘ میں بولتے ہوئے الفاظ میں ہیر پھیر بھی کرجاتے ہیں۔
کی تو اُسے ناکام بنانے کے طریقے موجود تھے، کیا سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قومی اسمبلی کا خون اور حکومت کا خاتمہ کیاگیا ہے اور اس کامیابی پر شاید نوے روز تک جشن منانے کا جواز کیا ہے۔ جو اِس کامیابی پر نازاں ہیں انہیں بہادری کا بڑا اعزاز کیوں نہ دیا جائے، سوشل میڈیا پر گرافکس کی مدد سے بنائی گئی تصویر بہت دلچسپ ہے، تصویر میں دکھایاگیا ہے کہ ایک بوڑھا مفلوک الحال شخص نیکر شرٹ پہنے، برہنہ پا، گریبان چاک اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے فریاد کررہا ہے کہ ہم دونوں باپ بیٹوں کا حق ماراگیا ہے۔
اب مطالبہ کیاگیا ہے کہ سازش کو ثابت کرنے کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو اُن کی بات کی تصدیق کرے، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ جعلی خط ہے، حکومت گرانے کی کوئی سازش نہیں ہوئی، یہ ڈھونگ حکومت اور حکومتی ساکھ بچانے کے لیے رچایاگیا ہے، جس روز قومی اسمبلی توڑی گئی وزیراعظم کے ساتھ اُن کے صرف اسی ساتھی ایوان میں آئے وہ اکثریت کھوچکے تھے۔
وقت آگے بڑھ رہاہے، عمران خان اپنی الیکشن مہم شروع کرچکے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات ان کی سوچ اور منصوبہ بندی کے مطابق ہوجائیں گے، لیکن کچھ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے، مختلف سیاسی شخصیات کی جانب سے بیانات نے رنگ محفل جمادیا ہے لیکن ایسے میں شیخ رشید صاحب، دست راست عمران خان اور سابق وزیر داخلہ کا ایک انٹرویو میں واضح لفظوں میں کہنا ہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، انہوں نے اس گرفتاری کی جو وجہ بیان کی اُس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، البتہ ایسا ہوا تو وجہ بہت سنگین ہوگی، فلم ’’عادل‘‘ کے ہیرو محمد علی اور ہیروئن اداکارہ سلونی تھیں،
دل پروانہ دھڑک رہا ہے
رنگ بدلتی رات بڑی رنگین ہے
ہائے بڑی سنگینی ہے