ماسٹر سٹروک یا کیچ آئوٹ ۔۔۔۔۔۔ مبشر انور
لمحوں میں کیا کایا پلٹ ہو گئی،کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کیسے عدم اعتماد کی تحریک کو ہی قومی اسمبلی کی کارروائی سے خارج کر دیا جائے گا۔اسمبلی کی کارروائی کو مد نظر رکھتے ہوئے، سب اراکین کا یہ خیال تھا کہ قومی اسمبلی میں ہونے والی واحد کارروائی ،عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی، جس کے لیے اپوزیشن اپنی بھرپور تیاری اور حامی اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی میں موجود تھی۔ اسمبلی کی کارروائی شروع ہوتے ہی اراکین کی تعداد ،ٹی وی سکرینوں پر ظاہر ہورہی تھی،صاف نظر آ رہا تھا کہ عددی اعتبار سے اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے ،177 کے مقابلے میں حکومت کے حامی اراکین کی تعداد 162دکھائی دے رہی تھی۔ ووٹنگ ہوتی تو واضح تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نہ صرف شکست سے دوچار ہوگی بلکہ اسے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گالیکن ایک دن پہلے وزیر قانون بننے والے چودھری فواد حسین نے موقع ملتے ہی،جو تقریر کی،اس نے سمت ہی بدل کر رکھ دی۔ ڈپٹی سپیکر نے وزیر قانون کے اٹھائے گئے نکات کو اہمیت دیتے ہوئے رولنگ دے دی کہ مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک بیرون طاقتوں کے زیر اثر لائی گئی ہے اور آئین کے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی ہے،لہٰذا وہ اس عدم اعتماد کی تحریک کو خارج کرتے ہیں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ ڈپٹی سپیکر کے پاس آرٹیکل پانچ پر رولنگ دینے کا اختیار ہے یا نہیں کہ معاملہ اس وقت عدالت میں ہے،عالمی طاقتوں کے حکومتیں گرانے یا بنانے کے کردار پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ کئی مواقع پر عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی خاطر کئی ممالک میں حکومتوں کا دھڑن تختہ کیا اور اپنی مرضی کی حکومتیں بنوائی ہیں۔یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دورہ یورپ سے واپسی پر روسی صدر پوتن اور ان کی حکومت کے متعلق کیا الفاظ کہے تھے،ترکی میں انتخابات کے موقع پر کیا ارشاد فرمایا تھا،مشرق وسطیٰ میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں،عراق میں کیا کیا جا چکا ہے،عرب سپرنگ کے نام پر مصر میں کیا کیا گیا ہے،افغانستان میں ریاستی مفادات کے تحت کیسی بہیمانہ جنگی کارروائی کی گئی ہے۔پاکستان میں امریکہ کیوں خاموش رہے گا؟بالخصوص جب اس کے مفادات کی نگہبانی میں رکاوٹ اتر آئے،یہ امریکہ کو کسی صورت منظور نہیں ،وہ بھی سنگین صورتحال میں کہ ایک طرف روس یوکرین کو سبق سکھا رہا ہو اور دوسری طرف چین نے نہ صرف بھارت بلکہ تائیوان کے معاملے پر بھی امریکہ کا ناطقہ بند کر رکھا ہو ،تو پاکستانی سرکار کے خلاف بروئے کار آنے میں کوئی مضائقہ نہیں،اور ایسے کھیل میں اصول نام کی کوئی چیز امریکہ کے مدنظر نہیں رہتی۔ ریاستی مفادات کا حصول ہی اولین ترجیح قرار پاتا ہے اور اس کے لیے امریکہ کے ایک ہاتھ میں گاجر اور دوسرے میں چھری رہتی ہے،حالانکہ یہ بھی فقط محاورے کی حد تک ہی ہے کہ امریکہ کی دوستی ،دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے اور امریکہ دوست بن کر جو نقصان پہنچاتاہے وہ کھلی دشمنی میں بھی نہیں پہنچا پاتا۔ یہاں یہ امر برمحل ہے کہ امریکہ ایک تاجر کے روپ میں سامنے آتا ہے اور کسی بھی ملک کے ساتھ اس کی ڈیل کھلی ہوتی ہے بعینہ ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو،اس کے بعد اس کی شرائط انتہائی واضح ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ عوام میں امریکہ پر شدید تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن پس پردہ ان کی رضامندی سے ہی امریکی تمام اقدامات کرتے ہیں۔سابقہ حکمرانوں کی اس منافقانہ پالیسی کو امریکی عہدیداروں نے بارہا آشکار کیا ہے اور موجودہ تحریک عدم اعتماد کو بھی بہرطور امریکی آشیرباد کا شاخسانہ ہی قرار دیا جارہا ہے کہ گذشتہ چند مہینوں سے بیرون ملک اس عدم اعتماد کا تانا بانا بنا گیا اور پھر گذشتہ مہینے میں اندرون ملک سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ ممبران قومی اسمبلی کے ساتھ سفارتخانہ کے آفیسران کی ملاقاتیں ،اس کی گواہی دے رہی ہیں کہ وہی ممبران اسمبلی جو امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں سے ملے ہیں،اس تحریک میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔