Column

ملکی صورت حال ،سب کو مبارکباد ۔۔۔۔۔ احمد نوید

احمد نوید

ایک لڑکا پریشان بیٹھا تھا۔ اُس کے دوست نے پوچھا۔
کیا ہوا؟

لڑکا۔ایک خط آیا ہے ۔ اُس میں پستول کی گولی ہے اور لکھا ہے ، میری بہن سے ملنا چھوڑ دو ، ورنہ گولی مار دوں گا۔
دوست۔تو تم چھوڑ دو۔ اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے ؟
لڑکا۔یہی تو مسئلہ ہے ، کس کس کو چھوڑوں، پستول کی گولی بھیجنے والے نے بہن کا نام ہی نہیں لکھا!
عمران خان صاحب کو موصول ہونے والے مشکوک خط کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ خط کے حوالے سے کتنے ہی بیانات بدلے گئے ۔ پہلے پس پردہ، پوشیدہ اور پھر سرعام ملک اور اُس امریکی عہدیدار کا نام بھی میڈیا کو بتا دیا گیا ۔ اس طلسم ہوش ربا خط کے معاملے نے 7مارچ کو سر اٹھایا تھا ، یعنی امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید کی 7مارچ کو ہونے والی ملاقات میں یہ مبینہ دھمکی آمیز خط امریکی معاون کی جانب سے پاکستانی سفیر کے حوالے کیا گیا ۔ جس کا تذکرہ عمران خان صاحب نے 27مارچ کو اسلام آباد میں جلسے کے شرکاسے کیا تھا کہ بیرون ملک سے ہماری حکومت کو گرانے کی سازش کی گئی ہے ۔ اس جلسے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے خان نے کہا کہ وہ سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے خط کے مندرجات شیئر نہیں کر سکتے مگر پھر عمران خان صاحب نے اپنے ہی خطابات کے تسلسل میں آہستہ آہستہ سب کچھ اوپن کردیا۔ ایسے میں اچانک ایک دن فیصل واڈا صاحب بھی سامنے آتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان کو قتل کرنے کی سازش بھی کی جارہی ہے۔
سیاست بہت بے رحم چیز ہے ۔ حقیقت عیاں اور شفاف ہے کہ عمران خان صاحب نے خود کو بچانے اور اپنی موت آپ مرتی پی ٹی آئی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے خط اور قتل کی سازش کو اچھالا ہے۔ مہنگائی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ جو خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے ۔ ان ناکامیوں کے علاوہ بھی پاکستان تحریک انصاف بہت سی بدنامیاں اپنے کھاتے میں ڈال چکی تھی ۔ ظاہری بات ہے کہ اس حکومت کی مدت ختم ہونے پر یا تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے پر بھی پی ٹی آئی کو الیکشن کا سامنا تو کرنا تھا۔ الیکشن یا تو کارکردگی پر لڑا جا تا ہے یا پھر وعدوں اور نئے نعروں پر۔ پاکستان تحریک انصاف اِن دونوں محاذوں پر منہ کی کھا چکی ہے ۔ کیا پی ٹی آئی ایک کروڑ نوکریوں ، پچاس لاکھ گھروں ، مہنگائی کے خاتمے ، کرپشن کے خاتمے، گڈ گورننس پر الیکشن لڑ سکتی ہے ؟ کیا پی ٹی آئی عوام کو دوبارہ نئے خوابوں ، وعدوں اور نعروں کو جھانسہ دے سکتی ہے ؟
ظاہری بات ہے ۔ اِن گرائونڈ ز پر پی ٹی آئی الیکشن لڑنے کے لیے عوام میں جائے گی تو یقیناً شکست اُس کا مقدر ہو گی ۔ ایسے نازک حالات اور موڑ پر پاکستان تحریک انصاف اور خود عمران خان کو فیس سیونگ یعنی اپنے بچائو اور پی ٹی آئی کو شکست سے بچانے کے لیے نئے بیانیے کی ضرورت تھی ۔ ایسی صورتحال میں خان صاحب کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا۔ وہ تھا مذہب کا رڈ۔
عمران خان صاحب اب خود کو امت مسلمہ کا رہنما بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ پاکستانی ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے ریاست مدینہ کا نعرہ بھی لگایا اور اب الیکشن میں شکست سے بچنے کے لیے امریکی دھمکی پر مشتمل خط اور جان کو خطرے جیسے نازک معاملات کو بھی اپنے ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔
پاکستانی سیاست میں کچھ بھی بیچا جا سکتا ہے ۔ بس بیچنے کا آرٹ آنا چاہیے ۔ لیکن اس طرح کے کھیل اور آرٹ ہمیشہ خطرناک رہے ہیں ۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی طرف سے ایک بار پھر اس خطرناک کھیل کو کھیلے جانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ مستقبل قریب کے الیکشن میں پی ٹی آئی ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کی پلاننگ کر چکی ہے ۔ اس ساری گیم میں ’’سیا ں کی چھٹی ‘‘اور جان کو خطرے کا کھیل
پی ٹی آئی کے ٹارزن کی واپسی کو ممکن بنا سکتا ہے ؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔
فی الحال یہ ضروری ہے کہ ملک عمران خان کے پیدا کردہ آئینی بحران سے نکلے ۔ جس کے لیے ذمہ دار اداروں اور خاص طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ لازم بنا نا ہوگا کہ تحریک عدم اعتماد ، اسمبلیوں کی تحلیل ، نگران سیٹ اپ اور نئے الیکشن کے انعقاد تک کوئی بھی عمل آئین شکن اور جمہوریت کے منافی نہ ہو ۔ اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب سابق گورنر چودھری سروراور علیم خان کی پریس کانفرنسز نے پاکستان تحریک انصاف کی ایمانداری اور شفافیت کے حوالے سے بہت سے سوال اور شکوک وشبہات پیدا کر دئیے ہیں ۔ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح خان اور اُس کے شوہر جمیل گجر کا اچانک پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہونا بھی غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہے ۔ جبکہ صوبائی دارالحکومت لاہور اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بہت سی چہ مگوئیاں اور سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں کہ عمران خان اپنا من چاہا نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور عین ممکن ہے وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے ۔
پاکستانی سیاست کے اُتار چڑھائو کی اس تلخ اور تکلیف دہ کہانی کو کچھ چیزیں مزید تکلیف دہ بنا رہی ہیں ۔ وہ یہ کہ اقتدار کی اس چھینا جھپٹی میں کسی کو نہیں معلوم کہ ہماری معیشت کی کشتی میں مزید کتنے سوراخ ہو چکے ہیں ۔ ڈالر چپ چپیتے اپنی اڑان بھرتا جا رہا ہے ۔ مہنگائی کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ بے لگام ہو چکا ہے ۔ بے روزگاری کی شرح میں ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے اور سیاست کے گرو اپنی اپنی چالیں چلنے میں مصروف ہیں۔
پاکستا ن کے اس حال پر سب مبارک باد کے حق دار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button