اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، نجات اور برکت کا ذریعہ

تحریر : عبد القدوس ملک
دنیا میں جو مال و دولت ہمیں عطا کی گئی ہے، وہ ہماری آزمائش کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم اسے صرف اپنی ذات کے لیے جمع کریں تو یہ یا تو ختم ہو جائے گا یا ضائع ہو سکتا ہے، مگر جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، وہ ہمیشہ باقی رہے گا اور قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنے گا۔ جو کچھ ہم کھا لیتے ہیں، وہ فنا ہو جاتا ہے، جو جمع کرتے ہیں، وہ دوسروں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں، لیکن جو اللہ کے نام پر دیتے ہیں، وہی اصل میں ہمارا سرمایہ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین: اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ہمیں غربائ، مساکین، یتیموں اور مستحقین کی مدد کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔
’’ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں، اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں۔ اور اللہ جس کے لیے چاہے ( اجر کو) کئی گنا بڑھا دیتا ہے‘‘۔ ( البقرہ: 261)
’’ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو‘‘۔ ( التوبہ: 34)
یتیموں، غریبوں اور مسکینوں کی کفالت کی تاکید: ’’ وہ ( نیک لوگ) اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔( الانسان: 8)
احادیثِ نبویؐ میں غرباء اور یتیموں کی مدد کی فضیلت۔
نبی کریم ؐجنت میں یتیموں کے کفیل کے ساتھ ہوں گے: ’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘۔ پھر آپؐ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی کو جوڑ کر دکھایا۔ ( صحیح بخاری: 5304)
صدقہ قیامت کے دن سایہ ہوگا: ’’ قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا‘‘۔ ( مسند احمد:17333)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سب سے بہترین مصرف: ’’ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو کسی حاجت مند کو دیا جائے‘‘ ۔ ( ابودائود: 1676)
دل کی نرمی اور روح کی پاکیزگی: ’’ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے، تو کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو اور اسے کھانا کھلائو‘‘۔ ( مسند احمد: 8956)
رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’ صدقہ مال کو کم نہیں کرتا بلکہ اللہ اس میں برکت ڈال دیتا ہے‘‘ ۔ ( صحیح مسلم:2588)
مصیبتوں اور بلائوں سے حفاظت: رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے اور بلائوں کو دور کرتا ہے‘‘۔ ( طبرانی)
آخرت میں درجات کی بلندی جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور یتیموں کی مدد کرتے ہیں، اللہ انہیں جنت میں بلند مقام عطا فرماتا ہے۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ: ’’ جس کا دل نرمی سے محروم ہو، وہ اللہ کی رحمت سے بھی محروم ہو جاتا ہے‘‘۔
شیخ سعدیؒ کہتے تھے کہ:’’ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، ہزار مسجدیں بنانے سے بہتر ہے‘‘۔
مولانا روم کا کہنا تھا کہ: ’’ اللہ کی خوشنودی اس میں ہے کہ تم اس کے بندوں کے ساتھ نرمی برتو‘‘۔
مولانا حالی کا کہنا تھا کہ:’’ وہی ہے جہاں میں خُدا کا پسندیدہ بندہ کہ ہے دستِ سائل پہ جس کا کشادہ۔
اس بارے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا شعر ہے کہ
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یتیموں کی کفالت کریں۔ یتیموں کے کھانے کا بندوبست کریں ان کے لیے کھانے، کپڑوں اور دیگر ضروریات کا بندوبست کریں۔ بیوائوں اور غریبوں کے لیے راشن اور مدد بیوائوں کو خود کفیل بنانے کے لیے انہیں کاروبار یا ملازمت کے مواقع دیں۔ مستحق خاندانوں کو راشن فراہم کریں۔ مریضوں کے علاج میں معاونت کریں۔
جو لوگ علاج کا خرچ نہیں اٹھا سکتے، ان کے لیے دوائیں اور دیگر سہولیات فراہم کریں۔ بے روزگار افراد کی مدد کریں، کسی کو ہنر سکھا کر خود کفیل بننے میں مدد دیں۔ چھوٹے کاروبار میں سرمایہ لگا کر کسی مستحق کو روزگار فراہم کریں۔ حقیقی کامیابی کا راستہ یتیموں، مسکینوں اور مستحقین کی مدد کرنا اللہ کی رضا اور جنت میں جانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دنیا بھی سنور جائے اور آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہو، تو ہمیں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ یہی وہ عمل ہے جو دائمی برکت، مصیبتوں سے نجات اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم فریضے کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
عبدالقدوس ملک