آئیے مل کر لکیر پیٹیں

تحریر: سیدہ عنبرین
پاکستان حالت جنگ میں ہے، یہ جنگ قریباً 25برس قبل شروع ہوئی تھی جو دراصل ہماری تھی ہی نہیں لیکن المیہ در المیہ جنہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے یہ جنگ شروع کی وہ اس سے یوں کنارہ کش ہوئے کہ اپنی پتلونیں، اپنی بندوقیں افغانستان میں چھوڑ کر بھاگتے دوڑتے جہازوں میں سوار ہوتے نظر آئے، یہ اس امریکی فوج کا حال تھا جو اپنے آپ کو دنیا کی بہترین فوج سمجھتی ہے۔ اس وقت انہوں نے پاکستان سے درخواست کی ہمیں افغانستان سے جان بچا کر نکلنے میں ہماری مدد کریں۔
پہلی فرمائش تھی کہ جنگ میں ہمارے فرنٹ لائن اتحادی بنیں ہم بن گئے۔ دوسری فرمائش کے تحت نکلنے میں مدد کریں ہم کرتے رہے اور تیسری فرمائش آئی ہے کہ وہ اسلحہ جو ہم وہاں چھوڑ کر بھاگے تھے اس کی بازیابی بھی آپ کرائیں، ہمارے خلاف تازہ ترین سازش یہی ہے، جو ابھی تک کسی کی سمجھ دانی میں نہیں آئی، شاید آئے بھی کبھی نا، یعنی ہم مستقل دشمن سے لڑتے رہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہمیں افغانستان میں الجھا کر کمزور کیا جائے، دوسری طرف دہشت گردوں کے سرپرستوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں مضبوط کیا جائے۔ ایک فرمائش کے مطابق ایک دہشت گرد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کا کہا گیا ہم نے فرمائش پوری کر دی۔
شریف حکومت میں شریف اللہ دہشت گرد امریکہ کے سپرد کر دیا گیا، یہ بہت بڑی کامیابی تھی، دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے خلاف زیرو ٹالرنس ہی ہونی چاہئے۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد ہمیں ’’ واہ واہ‘‘ کا شوق چرایا، خصوصی رابطے استوار کر کے ٹرمپ انتظامیہ سے کہا گیا اس معاملے میں ہماری تعریف تو بنتی ہے، لہٰذا ایک کلک تو ضروری ہے، بس وہ ایک کلک ہماری جان نہیں چھوڑے گا۔ امریکی صدر نے اس دہشت گرد کو پکڑنے میں ہماری شان میں قصیدہ پڑھا، ہم تو پہلے ہی سر دھننیں کیلئے تیار بیٹھے تھے، لیکن امریکی چال کو نہ سمجھ سکے اور امریکی تعریف پر خوش ہوتے رہے۔ قریباً ڈیڑھ سو دانشوروں اور کالم نگاروں نے بڑھ چڑھ کر بازی لے جانے کی کوششیں کیں، صرف ایک صحافی کالم نگار ناصر شیرازی نے کہا کہ کام تو درست ہوا ہے لیکن نہایت بھونڈے انداز میں۔ اس دہشت گرد کو خاموشی سے امریکہ کے سپرد کرنا چاہئے تھا، اس کی تشہیر اور کریڈٹ لینے کا شوق ہمیں مہنگا پڑے گا، اب اس کا ری ایکشن آئے گا اور ٹھیک چند روز بعد ری ایکشن آ گیا۔ 5سو مسافروں کو کوئٹہ سے لے کر پشاور جانے والی ٹرین کو اغوا کر لیا گیا، شناختی کارڈ دیکھ کر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد رہا کر دیئے گئے، جبکہ دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا۔
منصوبہ بندی سے واضع ہوتا ہے کہ یہ عام لوگوں کی منصوبہ بندی نہیں تھی، بلکہ جنگ اور بالخصوص گوریلا وارفیر کا تجربہ رکھنے والے ذہنوں نے یہ منصوبہ تیار کیا، انہیں اطلاع تھی عید کے موقع پر بلوچستان میں تعینات حساس ادارے کے اہلکار چھٹیوں کیلئے پنجاب اور صوبہ خیبر اپنے گھروں کو جائیں گے، پس اس ٹرین کو ٹارگٹ کیا گیا جس نے درجن سے زائد سرنگوں سے گزرنا تھا، اسے ایسے مقام پر روکا گیا جہاں سے سبی فاصلہ 21کلو میٹر اور کوئٹہ سے فاصلہ 157کلو میٹر ہے۔ سرنگ نمبر 8کے قریب جہاں اس ٹرین کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا وہاں ریلوے ٹریک سڑک سے 24کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کوئٹہ جیکب آباد ریلوے ٹریک زیادہ تر سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، اس جگہ کو منتخب اس لئے کیا گیا کہ مدد کیلئے آنے والے فوجی دستوں کو جائے واقعہ پر پہنچنے میں وقت لگے اور وہ با آسانی وہاں نہ پہنچ سکیں، تخریب کاروں نے اس بات کا اہتمام کر رکھا تھا کہ مدد کیلئے آنے والوں کو راستے میں ہی روک سکیں، دہشت گردوں کی کئی ٹولیاں اونچے پہاڑوں پر تعینات تھیں۔
یہ معاملہ صرف تخریب کاری نہیں، اس سے کچھ آگے کی بات ہے، ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا جاتا تو یہ تخریب کاری تھی، ٹرین پر فائرنگ کر دی جاتی تو یہ تخریب کاری ہوتی، یہ دونوں کام کرنے کے بعد ٹرین کے مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا ، جن کی تعداد ریلوے حکام کے مطابق 5سو کے قریب بیان کی گئی ہے۔
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 5سو افراد سے بھری ہوئی ٹرین کو یرغمال بنانے کیلئے تخریب کار کتنی بڑی تعداد میں ہوں گے ، جو یقیناً درجنوں سے سیکڑوں ہوں گے، انہیں یہ بھی خبر تھی یا اندازہ تھا کہ ٹرین مسافروں کی طرف سے مزاحمت بھی ہو سکتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ تخریب کاری کے ہونے والے متعدد واقعات کے باوجود اس ٹرین کے ساتھ سکیورٹی کا کوئی موثر انتظام کیوں نہ کیا گیا۔
ٹرین کے آگے اور پیچھے کم از کم 50،50افراد کی دو ٹیمیں ہونی چاہئے تھیں، جو مختلف شفٹوں میں جاگتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود ہوتے۔ کوئٹہ سے پشاور کا سفر 36گھنٹے پر مشتمل ہے لیکن ٹرین اکثر 4سے 6گھنٹے لیٹ ہوتی ہے یوں یہ سفر 40 گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے، جس میں ابتدائی سفر کے 8گھنٹے خطرے سے خالی نہیں ہوتے۔ حیرت ہے اس نکتے کو کیوں نظر انداز کیا گیا،، پنجاب اور صوبہ خیبر سے تعلق رکھنے والوں کو اس ٹرین میں بے یارو مدد گار بٹھا کر انہیں موت کے منہ میں دھکیلنا مجرمانہ فعل ہے۔ اس کے ذمہ داروں کا تعین اور ان کی سزا بھی ضروری ہے۔ دنیا جانتی ہے پاکستان میں تخریب کاری بھارت کروا رہا ہے۔ واقعے کی اگلے روز یعنی 12مارچ کی صبح قومی اخبار دیکھے اور نظریں مسلم لیگ ن کے قائد جناب نواز شریف کا مذمتی بیان ڈھونڈتی رہی۔ جناب وزیراعظم اور سی ایم پنجاب کا بیان بھی بہت تلاش کیا لیکن ان کے حوالے سے صفحہ اول اور صفحہ آخر دونوں خالی تھے۔ اس مرتبہ تو یہ بھی کہنے کا تکلف گوارہ نہ کیا گیا کہ مجرموں اور تخریب کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، کہیں بھارت کا نام لی کر اس کی مذمت نہیں کی گئی ۔ وزارت داخلہ کے سرخیوں نے گول مول لفظوں میں صرف تخریب کار کہا ہے، کسی نے بھارت کا نام نہیں لیا، مسئلے کے حل پر بھی کسی نے توجہ نہیں دی۔ گزشتہ ماہ کراچی کے تاجروں کی طرف سے فرمائش آئی تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ کو پنجاب لے جائیں اور سی ایم پنجاب کو سندھ بھیج دیں تاکہ سندھ میں کچھ ترقی ہو سکے۔ حیرت ہے بلوچستان کے باسیوں کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ بلوچستان میں امن اور تمام مسائل کا حل وزیراعلیٰ پنجاب کے ویژن میں پوشیدہ ہے وہ انہیں مہمان بلائیں، حق میزبانی ادا کریں اور بلوچستان کی قسمت دنوں میں بدلتی ہوئی دیکھیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا آئیے! مل کر سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے ہیں اور نئے سانپ کے برآمد ہونے اور نئی لکیر بننیں کا انتظار کرتے ہیں، پھر مل کر اس نئی لکیر کو پیٹیں گے بلکہ اس کیلئے میلہ ٹیلہ بھی منعقد کریں گے، ہم اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔