بجلی قیمت میں بڑی کمی کا حکومتی منصوبہ تیار

پاکستان 2018ء کے وسط کے بعد سے بدترین بحران کا شکار ہوا۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی سے دوچار ہوا۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچ گئے۔ بنیادی ضروریات (بجلی، گیس اور ایندھن) کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافے دیکھنے میں آئے۔ خصوصاً بجلی بلوں نے تو عوام کا بھرکس ہی نکال ڈالا۔ ہر کچھ عرصے بعد بجلی کی قیمت میں بڑا اضافہ ہوتا رہا 2019ء سے لے کر 2024ء تک بجلی کے دام بے پناہ بڑھ گئے۔ اتنے زیادہ ہوگئے کہ غریب عوام بجلی بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنی جمع پونجی تک قربان کرنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں ماہانہ لاکھوں روپے بجلی بل آنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ آج بھی وطن عزیز میں خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی دستیاب ہے، جن کے بلوں کی ادائیگی غریبوں کے لیے سوہانِ روح سے کم نہیں ہوتی۔ بجلی بل ادا کرنے میں اُن کی آمدن کا بہت بڑا حصّہ خرچ ہوجاتا ہے جب کہ خطے کے دیگر ملکوں میں بجلی بلوں کی مد میں وہاں کے عوام کو اپنی آمدن کا انتہائی معمولی حصّہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ سال کی ابتدا تک بجلی کی قیمتیں انتہائی تیزی سے بڑھتی رہیں۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کو غریب عوام کی مشکلات کا چنداں ادراک نہ تھا۔ وہ بنا سوچے سمجھے ہر شے کے دام بڑھاتے رہے اور اُن کے وزیر بڑی ڈھٹائی سے عوام کی مہنگائی سے مزید چیخیں نکلنے کے بیانیے دیتے رہے۔ گزشتہ برس فروری میں عام انتخابات کے نتیجے میں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف منصب سنبھالتے ہی ملک و قوم کو لاحق مشکلات کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہوگئے۔ معیشت کی بہتری اور استحکام اُن کی ترجیح رہی، جس کے لیے اُن کے کیے گئے اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ معیشت کو درست سمت پر گامزن کیا۔ اُنہوں نے دوست ممالک کے دورے کرکے اُنہیں پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ تمام تر شعبوں میں خرابیوں کی درستی کے لیے اصلاحات کے سلسلے کا آغاز کیا، اصلاحات کا عمل اب بھی پوری تندہی سے جاری ہے، جس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف عوام کی مشکلات اور مصائب کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں۔ بجلی کی زائد قیمتوں کا اُنہیں پوری طرح احساس ہے، وزیراعظم اور اُن کی ٹیم بجلی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ کچھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدات ختم کرکے قومی خزانے کے اربوں روپے بچانے ایسے بڑے اقدامات اس حکومت کا بڑا کارنامہ ہے، مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کے خاتمے کے لیے حکومت کوشاں ہے۔ پچھلے مہینوں میں وزیر توانائی سردار اویس لغاری ایک سے زائد بار بجلی قیمتوں میں بڑی کمی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ بجلی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومتی کاوشیں ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہیں کہ وسیع تر عوامی مفاد میں اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ حکومت نے بجلی قیمتوں میں بڑی کمی کی خاطر منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مہنگی بجلی کے ستائے عوام کے لیے خوش خبری، حکومت نے بجلی 10روپے فی یونٹ تک سستی کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ ذرائع کے مطابق عوام کو بلز میں سہولت دینے کے لیے بجلی 8سے 10روپے فی یونٹ سستی کرنے کا حکومتی منصوبہ تیار ہے، جس کے تحت گردشی قرضے کے حجم کو ختم کیا جائے گا۔ حکومتی منصوبے پر عمل کے تحت قرضوں کی ادائیگی میں 1.3کھرب روپے کی کمی سے گنجائش پیدا کی جائے گی اور قرضوں کی کمی سے پیدا ہونے والی مالی گنجائش بجلی کی قیمت میں کمی کے لیے استعمال ہوگی۔ منصوبے سے بجلی کے شعبے میں جاری مالی نقصانات کم ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا جائزہ مشن آئندہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کا دورہ کرے گا، اس دورے کے دوران یہ منصوبہ آئی ایم ایف مشن کے سامنے رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ٹیکسوں میں کمی کا منصوبہ آئی ایم ایف پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی منصوبے کے تحت بنیادی ٹیرف میں 8 سے10روپے فی یونٹ تک کمی کی جائے گی۔ بجلی قیمت میں 10روپے فی یونٹ تک کمی کے حکومتی منصوبے کی تیاری یقیناً عظیم قدم اور ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ اس پر حکومت کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرنے والے حکمراں ایسا ہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یقیناً حکومتی کاوشوں کے نتیجے میں بجلی کی قیمت میں بڑی کمی ممکن ہوسکے گی، یوں مہنگی بجلی کے ستائے عوام کو بڑا ریلیف ملے گا۔ اُن پر بجلی بلوں کی مد میں پڑنے والا بڑا بوجھ کم ہوگا۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں شفافیت کے ساتھ قدم اُٹھائے جائیں اور آگے بھی بجلی قیمت میں مزید کمی کے لیے کوشاں رہا جائے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے جان چھڑائی جائے اور بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) کے منصوبے بنائے جائیں اور انہیں جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔ اس حوالے سے تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں۔ جتنا زیادہ ہوسکے ، چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ ویسے بھی ڈیمز ملکی آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہیں اور کئی عشروں سے ملک میں کوئی نئے بڑے ڈیمز نہیں بن سکے ہیں۔ ملک کی اکثر آبادی کو آبی قلت کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر سے ناصرف پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوسکے گا بلکہ وافر بجلی بھی حاصل ہوسکے گی۔
چیمپئنز ٹرافی: آج پاک بھارت مدمقابل
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں آج دبئی میں چیمپئنز ٹرافی کے اہم میچ میں مدمقابل ہوں گی۔ دفاعی چیمپئن پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی 2017کے فائنل میں بھارت کو تاریخ کی بدترین شکست دیتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ اس مقابلے میں جہاں فخر زمان، اظہر علی اور محمد حفیظ نے بھارتی بولرز کے چھکے چھڑائے تھے وہیں حسن علی، شاداب خان، جنید خان نے بھارتی بلے بازوں کو آئوٹ آف کلاس کیا تھا۔ پاک بھارت مقابلے کو دُنیائے کرکٹ کا سب سے دلچسپ میچ تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے شائقین سمیت دُنیا بھر کی نظریں اس میچ پر ہوتی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کانٹے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان کی میزبانی میں ہورہی ہے، بھارتی حیلے بہانوں کے باعث بھارت کے تمام مقابلے متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوں گے۔ بھارت نے سیکیورٹی جواز بناکر پاکستان آنے سے انکار کیا جب کہ دُنیا بھر کی ٹیمیں پاکستان میں کھیل رہی ہیں۔ موجودہ چیمپئنز ٹرافی کا پہلا میچ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان کھیلا گیا تھا، جس میں کیویز نے پاکستان کو 60رنز سے شکست دی۔ دوسرے مقابلے میں بھارت نے بنگلادیش کو زیر کیا۔ تیسرے میچ میں جنوبی افریقا نے افغانستان کو شکست دی۔ چوتھے میچ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ چونکہ پاکستان اپنے پہلے میچ میں شکست کھا چکا ہے، اس لیے بھارت کے خلاف اسے ٹورنامنٹ میں اپنی بقا کے لیے جیتنا لازمی ہے۔ اس میچ میں شکست پاکستان کو میگا ایونٹ سے باہر کردے گی۔ پاکستان کو جارح مزاج اوپنر فخر زمان کے ان فٹ ہونے سے بڑا نقصان پہنچا۔ ان سے قبل صائم ایوب بھی ان فٹ ہوچکے تھے۔ فخر کے متبادل کے طور پر امام الحق کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ میچ پاکستان کے لیے خاصی اہم نوعیت کا ہے۔ شکست کی چنداں گنجائش نہیں۔ ہر صورت بھارت کو بھاری مارجن سے ہرانا ہوگا، ٹھیک ویسے ہی جیسے پچھلی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں اُس کو شکست دی تھی۔ اس میچ میں تمام کھلاڑیوں کو اپنا بہترین کھیل پیش کرنا ہوگا۔ جہاں بلے بازوں کو ذمے داری نبھانا ہوگی، وہیں بولرز کو بھی نپی تلی گیند بازی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر تمام کھلاڑیوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا تو یقینی طور پر جیت پاکستان کی ہوگی۔