مولانا فضل الرحمان کی بلاول بھٹو کو تھپکی
محمد ناصر شریف
قومی اسمبلی سے آئینی ترامیم منظور ہونے پر مولانا فضل الرحمان بلاول بھٹو زرداری کے پاس آکر گلے ملے اور کندھے پر تھپکی دی، وزیراعظم شہباز شریف نے بھی گلے لگاکر کوئی چٹکلا چھوڑا جس پر سب قہقہے لگانے لگے، بلاول بھٹو نے ہائوس میں آتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کے پاس جاکر ہاتھ ملایا اور نتیجے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر کے پاس جاکر ہاتھ ملایا۔
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کرانے میں بالآخر کامیاب ہوگئیں، سینیٹ نے اتوار کو65 ووٹوں کی دو تہائی اکثریت سے26ویں آئینی ترمیم منظور کرلی جبکہ مخالفت میں 4ووٹ آئے ، حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل ) کے دو ارکان نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا ۔ ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔ سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی۔ 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سود کے خاتمے کی ترمیم پیش کی، دوران اجلاس آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران یکم جنوری 2028 تک سود کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شق متفقہ طور پر منظور کی گئی۔
قومی اسمبلی میں 6 آزاد اراکین کی بدولت قومی اسمبلی میں ترمیمی بل کو دوتہائی اکثریت ملی ۔ مسلم لیگ، پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم ، جے یو آئی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے کل ووٹ 219 تھے ، چھ آزار اراکین نے ووٹ ڈالے ،ووٹ دینے والے آزاد ارکان میں چودھری الیاس ، عثمان علی، مبارک زیب، ظہور قریشی اور اورنگ زیب کچھی بھی شامل ہیں،ظہور قریشی شاہ محمود قریشی کے بھتیجے ہیں ۔
پارلیمنٹ پہنچنے پر مولانا فضل الرحمان کا فقیدالمثال خیرمقدم کیاگیا،آئینی ترمیم کے لیے تاریخ ساز کردار ادا کرنے پر پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے فراخدلانہ خراج تحسین پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئینی ترامیم پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنی کامیابی کو مولانا سے منسوب کردیا جس پر پورے ایوان نے تادیر تالیاں بجا کر اپنے جذبات کو اس میں شامل کیا۔ آئینی ترمیم کے حوالے سے مولانا نے سیاسی طور پر باہم متصادم سیاسی فریقین کے ساتھ معاملہ آرائی کر کے انھیں بقائے باہم کے اصول پر کاربند رہنے کیلئے اپنی فراست سے آمادہ کیا انہوں نے اس شخص کیلئے بھی احترام کا لہجہ اختیار کیا جو سالہا سال سے رات دن مولانا کے بارے بدزبانی اور گالم گفتار کے سوا کوئی بات نہیں کرتا تھا ۔
26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی نے اچانک یو ٹرن کیوں لیا ؟ عین بل کی منظوری کے دن پی ٹی آئی کی سیا سی قلابا زی نے حیران کردیا ،سیاسی کمیٹی نے بائیکاٹ کا جواز بنایا ، پی ٹی آئی کی قیادت کا خیال تھا کہ مو لا نا فضل الرحمان کسی صورت بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے اور ترمیمی بل منظور نہیں ہوسکے گا ،جب پتہ چلا مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے تو حسب رویت یو ٹرن لے لیا۔
سیا سی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس اس مرحلے پر بائیکاٹ کا کوئی جواز نہیں تھا۔سیاسی کمیٹی نے بائیکاٹ کا جواز یہ بنایا ہے کہ انتخابات پر ڈاکہ ڈال کر ایوانوں پر قابض گروہ کے پاس آئین کو بدلنے کا جواز نہیں ہے۔ مینڈیٹ چور سرکار اور اس کے سرپرست آئین میں ترامیم کے ذریعے ملک میں جنگل کے قانون کو نافذ کرنا اور جمہوریت کو زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت کو آئین بدلنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر بیرسٹر گوہر اور عمرا یوب خان اور ملک عامر ڈوگر خصوصی پا رلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیوں شریک ہوتے رہے؟۔ حکومتی مسودہ کیوں مانگا گیا؟۔ مو لا نا فضل الرحمان کے ساتھ تر میمی مسودے پر مشاورت کیوں کی گئی ؟ بانی چیئر مین عمران خان سے مشاورت کیلئے ملاقات کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟۔سیاسی حلقوں میں یہ کہاجا رہا ہے کہ دراصل پی ٹی آئی کی قیادت کا خیال تھا کہ مو لا نا فضل الرحمان کسی صورت بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے اور یہ ترمیمی بل منظورنہیں ہوسکے گا لیکن جونہی بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد مو لا نا فضل الرحمان نے ہفتے کی شب یہ اعلان کیا کہ ان کامسودے پر اتفاق ہوگیا ہے تو پی ٹی آئی نے حسب رویت یو ٹرن لے لیا ۔
26ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائیگا۔ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیئے جائیں گے ۔ چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔ آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کئے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3سینئرترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔ کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3سال ہوگی تاہم چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے۔ ترمیم کے تحت چیف جسٹس سے سومو نوٹس لینے کا اختیار ختم جبکہ ججز کی ترقی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی ۔ ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے ۔ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدر مملکت، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونلزمیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ آ رٹیکل 111میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرنے کے مجاز ہوں گے۔ عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری کی منظوری کے بعد 26ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ جس کے بعد 26ویں آئینی ترمیم بل 2024 ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سب سے پہلے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر کرے گی۔ آرٹیکل 175اے کی شق 3 کے تحت نئے چیف جسٹس کا تقرر عمل میں لایا جائے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان آرٹیکل 175اے کی ذیلی شق تین کے تحت تین سینئر ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے اور پارلیمانی کمیٹی تین ججز میں سے ایک جج کا تقرر کرے گی۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر کر کے نام وزیر اعظم کو ارسال کرے گی اور وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کی ایڈوائس صدر کو بھجوائیں گے۔
ویسے تو فضل الرحمان اور بلاول بھٹو میں بڑھتی قربتیں خوشگوار سیاسی تبدیلی ہے۔ اسی طرح ایک جماعت کے علاوہ پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں ایک پیچ پر نظر آئیں۔ یقیناً بلاول بھٹو زرداری نے اس ترمیم کے دوران مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف سمیت تمام رہنمائوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگا جو ان کے لیے مستقبل میں بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔
پاکستان کی عدالتوں سے ویسے بھی عام آدمی کو کبھی انصاف نہیں ملا، یہ عدالتیں خواص کے لئے ہی خدمات انجام دے رہی ہیں، عدالت میں متعین ججز صاحبان کو بھی عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے لئے کردار ادا کرنا اور اپنے متعلق اس تاثر کو ختم کرنا چاہئے ،ساتھ ہی وکلا کو بھی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو رول ماڈل بناکر اپنی اصلاح کرنی چاہیے، ظالم کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوم کی دادرسی کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہیے۔