Editorial

26ویں ترمیم کی دوتہائی اکثریت سے منظوری

اصلاح اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اصلاح کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ہر اُس اچھی چیز کی جانب قدم تیزی سے بڑھانے چاہئیں جس سے ملک و قوم کا بھلا اور خیر برآمد ہوتی ہو۔ ناانصافی کو بڑھاوا دینے والے اوامر کا تدارک فوری کیا جانا چاہیے ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ معاملات مزید سنگین شکل اختیار کرتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مشہور ہے ’’معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ظلم اور ناانصافی پر نہیں۔’’ ہمارے نظام انصاف کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بے شمار خامیاں پائی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے عدل کے حصول کے لیے لوگ برسہا برس جوتیاں گھستے رہتے ہیں، لیکن اُنہیں انصاف نہیں مل پاتا۔ من پسندوں کو فوری اور اُن کی مرضی کے مطابق انصاف فراہم کردیا جاتا ہے۔ غریب سائلین اس کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں نظام انصاف میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، ملک و قوم کی بہتری کے لیے سرگرداں ہے۔ ملک و قوم کے مفاد میں کئی بڑے اقدامات کرچکی ہے۔ ملکی معیشت کو درست سمت پر گامزن کر ڈالا ہے۔ عوام کی حقیقی اشک شوئی کے بندوبست ہوتے نظر آرہے ہیں۔ عظیم سرمایہ کاریاں پاکستان آرہی ہیں۔ اگلے وقتوں میں ملکی معیشت کی صورت حال مزید بہتر رُخ اختیار کرے گی اور غریب عوام کے مصائب میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ موجودہ حکومت آئینی اصلاحات کی جانب بھی سنجیدگی سے توجہ دیتی دِکھائی دی اور گزشتہ روز اس نے عظیم معرکہ سر کیا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے۔ ایوان بالا (سینیٹ) اور قومی اسمبلی نے 26ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی۔ سینیٹ میں ترمیم کے حق میں 65 ووٹ اور قومی اسمبلی میں 225ووٹ ڈالے گئے۔ 26ویں آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کے زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف، نوازشریف، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، حمزہ شہباز شریف، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی موجود رہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے 26ویں آئینی ترامیم کا بل منظوری کیلئے اسمبلی میں پیش کیا۔ آئینی ترمیم کا بل پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر نے شق وار ووٹنگ کرائی تو آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت (225ووٹوں) سے منظوری دے دی گئی۔ تاہم اپوزیشن (پاکستان تحریک انصاف) نے ووٹنگ کے دوران اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور اس کے ارکان ایوان سے باہر چلے گئے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کیلئے حکومتی اتحاد کو 224ووٹ درکار تھے جبکہ حکومتی اتحاد 211ارکان پر مشتمل ہے۔ حکومتی بینچز پر مسلم لیگ ن 111، پیپلز پارٹی کی 69نشستیں ہیں، ایم کیو ایم 22، ق لیگ 5، آئی پی پی کے 4ارکان ہیں، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک، ایک
رکن ہے۔ جبکہ حکمران اتحاد کے 3ارکان کے خلاف ریفرنس دائر ہے، اس طرح یہ تعداد 211ہے اور جے یو آئی کے 8ارکان کی حمایت کے ساتھ یہ تعداد 219ہوگئی، حکومت کو آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے مزید 5ارکان کی ضرورت تھی۔ تاہم اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد ارکان چودھری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، ظہور قریشی اورنگزیب کھچی ایوان میں پہنچ گئے اور گنتی کے دوران اپنا ووٹ شمار کرایا۔ اس سے قبل سینیٹ کے اجلاس میں شق وار منظوری کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ حکومت کو ملنے والے 65ووٹوں میں 24پیپلز پارٹی، 19ن لیگ، پانچ جے یو آئی، چار بلوچستان عوامی پارٹی، تین ایم کیو ایم، تین اے این پی، دو بی این پی، چار آزاد سینیٹرز اور ایک ووٹ ق لیگ کے سینیٹر کا تھا جبکہ مخالفت میں 4ووٹ پڑے، جے یو آئی کی جانب سے دی جانے والی ترامیم بھی بل کا حصہ بن گئیں۔ اجلاس چیئرمین سیدیوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ہوا، اجلاس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کا مقصد عدلیہ کے نظام میں شفافیت لانا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے احکامات پر سینیٹ کی تمام لابیز اور گیلریز کو مہمانوں اور سرکاری افسروں سے خالی کرا لیا گیا، بعد ازاں بل کی شق وار منظوری کیلئے رائے شماری کرائی گئی، پہلی ترمیم کے حق میں دو تہائی اکثریت سے 65ارکان نے ووٹ دیا، 4نے مخالف کردی، اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹرکامران مرتضیٰ نے بھی ترامیم پیش کیں اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس کی حمایت کی اور کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔ جمعیت علمائے اسلام نے آئین کے آرٹیکل 38کے پیراگراف ایف میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جس میں کہا گیا کہ سودی نظام کا خاتمہ جتنا جلدی ممکن ہو کیا جائے گا، حکومت کی حمایت پر ایوان نے آرٹیکل 38میں ترمیم منظور کرلی، 65ارکان نے حق میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔ آرٹیکل 48میں ترمیم منظوری کے لیے پیش کی گئی کہ وزیراعظم اور کابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹربیونل اور کوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کر سکے گی، سینیٹ نے آرٹیکل 48میں مجوزہ ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی۔ سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 81میں ترمیم کی منظوری دی، آرٹیکل 81میں ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کو شامل کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ سے متعلق آرٹیکل 175اے میں ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔بہتری اور اصلاح کی جانب مقننہ نے قدم بڑھا دئیے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کی صدر مملکت آصف علی زرداری نے منظوری دے دی ہے، اس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جو قدم اُٹھائے گئے ہیں، وہ اگلے وقتوں میں ملک و قوم کے مفاد میں بہترین ثابت ہوں گے۔
منشیات کا مکمل خاتمہ
راست اقدامات ناگزیر
منشیات کے عفریت نے دُنیا بھر میں بڑی تباہ کاریاں مچائی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس نے بے شمار زندگیوں کو برباد کر ڈالا ہے۔ ہمارے کئی قابل ذہن منشیات کی لت کا شکار
ہوکر ناکارہ بن چکے۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو منشیات کی لت کا شکار ہونے کے باعث اپنے لواحقین کے لیے عمر بھر کا روگ چھوڑ کر اس دُنیا سے جاچکے۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے شہری نشے کی لت میں مبتلا اور اپنے اہل خانہ کے لیے مستقل عذاب ہیں۔ وہ انہیں زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے ہر طرح کے جتن کرچکے، لیکن وہ منشیات کے چُنگل میں ایسے جکڑے ہیں کہ اُس سے ہزارہا کوششوں کے باوجود آزاد نہیں ہوپاتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لوگ منشیات کی لت کا شکار ہیں۔ ہمارے پارک، فٹ پاتھ، بازار، مزار اور دیگر مقامات ان کی آماجگاہ ہیں، جہاں یہ کھلے عام نشے کی جھینپ مٹاتے نظر آتے ہیں۔ اس سے بھی بہت بڑی تعداد میں ایسے بھی لوگ منشیات کی لت کے عادی ہیں، جو بظاہر نارمل زندگی گزارتے ہیں، چھپ کر نشہ کرنا ان کی عادت ہے اور یہ خود کو نارمل انسان ظاہر کرتے ہیں۔ خواتین بھی بڑی تعداد میں نشے کی لت سے دوچار ہیں۔ نابالغ بچے بھی نشے کے چُنگل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہیں۔ اگر منشیات کا خاتمہ نہ کیا جاسکا تو اگلے وقتوں میں صورت حال مزید گمبھیر ہوسکتی ہے۔ وطن عزیز میں بڑے پیمانے پر منشیات کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ زمینی، فضائی اور بحری راستوں سے اسے یہاں مذموم عناصر پہنچاتے اور یہاں سے بیرونی دُنیا میں اسمگل بھی کرتے ہیں۔ منشیات کے خلاف وطن عزیز کے متعلقہ ادارے برسرِپیکار ہیں۔ پاک بحریہ نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ کامیاب آپریشن میں منشیات کی بڑی کھیپ پکڑی تھی، جو اینٹی نارکوٹکس فورس کے سپرد کی گئی ہے۔ اس کی مالیت 145 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاک بحریہ کی جانب سے تحویل میں لی گئی منشیات کی بڑی کھیپ اینٹی نارکوٹکس فورس کے حوالے کردی گئی۔ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق پاکستان نیوی اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں شمالی بحیرہ عرب میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کائونٹر نارکوٹکس آپریشن کیا گیا۔ آپریشن میں پاک بحریہ کے جہاز نے قریباً 2000کلو گرام چرس، 370کلو آئس اور 50کلو ہیروئن قبضے میں لے لی۔ اس کھیپ میں منشیات کے طور پر استعمال ہونے والی ایک لاکھ غیر قانونی بھارتی ساختہ گولیاں بھی شامل ہیں، جنہیں سمندر کے راستے بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچایا جانا تھا۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں برآمد شدہ منشیات کی مالیت قریباً 145ملین امریکی ڈالر ہے۔ ضبط شدہ منشیات کو مزید قانونی کارروائی کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس کے حوالے کردیا گیا۔ پاک بحریہ اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے کامیاب آپریشن کے نتیجے میں بڑی مقدار میں منشیات برآمد ہوئی ہیں، قومی فریضہ کے طور پر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی پاک بحریہ کے عزم کا مظہر ہیں۔ اتنی وافر مقدار میں منشیات کا پکڑا جانا یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ ملک سے منشیات کے مکمل خاتمے کے لیے راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ منشیات کے خلاف متواتر کارروائیاں عمل میں لائی جائیں اور اس سے ملک و قوم کو نجات دلائی جائے۔ منشیات کے خاتمے کے لیے سخت کریک ڈائون ناگزیر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button