Editorial

واقعہ کربلا۔۔ فلسفہ حقیقت اور بصیرت افروز اسباق

آج امام عالی مقام، نواسہ رسولِ خدا ،حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72جاں نثاروں کا یوم شہادت پورے عالم اسلام میں روایتی اور مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ انسانی تاریخ کا یہ المناک ترین واقعہ ہمیشہ کیلئے لہو رنگ الفاظ میں لکھنے اور پڑھے جانا مجالس عزا اور علم و تعزیے کے جلوسوں کی شکل میں چلا آرہا ہے جس میں امت مسلمہ کیلئے بہت سے بصیرت افروز اسباق موجود ہیں ۔ 10محرم الحرام 61ہجری کو میدان کربلا میں ہزاروں ( بعض روایات میں 80ہزار) افراد پر مشتمل یزیدی لشکر نے محض 72نفوس قدسیہ کو جس ظلم و بربریت سے شہید اور نبی زادیوں کو بے پردہ کیا ، بے آب و گیاہ مقام پر ان کے خیمے جلائے، حتیٰ کہ قیدی بنا کر کوفہ و شام کی گلیوں میں پھرایا ۔ امام عالی مقام نے آخری لمحات میں بھی امت مسلمہ کو اس حادثے سے بچانے کی کوشش کی مگر یزیدی فوج کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جگر گوشہ بتول یزید سے بیعت کرلیں۔ امام نے اپنا اور پیاروں کا سر دینا تو قبول کیا لیکن بیعت نہ کرکے رسول خدا کے دین کو ہمیشہ کیلئے طاغوتی قوتوں سے بچالیا اور امت مسلمہ کو ہر ظلم کے سامنے ڈٹ جانے اور اسلام کو زندہ و تابندہ رکھنے کا درس دیا۔ فی زمانہ اہل ایمان اور حق وانصاف کا اس حقیقت پر یقین کامل رہا ہے کہ واقعہ کربلا کوئی سیاسی اور دنیا حاصل کرنے کی نہیں بلکہ حق و باطل اور خیر و شر کی جنگ تھی جس کا حق ادا کرکے امام عالی مقام نے واقعہ کربلا کی شکل میں ہر طاغوتی حملے کا دینی انداز میں جواب صبر و استقامت کے ساتھ دینے کے طور پر قائم کی۔ واقعہ کربلا کا فلسفہ حقیقت میں امت مسلمہ کو فرقوں میں تقسیم کرنا نہیں بلکہ منقسم گروہوں کو اسوہ حسینی تلے ایک لڑی میں پرونا ہے۔ جس پر موقع و محل کے مطابق مکمل عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ یزید کا اعلانِ بادشاہت اسلامی نظام شورائیت کی نفی اور غیر دینی قوانین کا نفاذ تھا۔ لہٰذا حضرت امام حسینؓ نے اس کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے اس کے بدلے پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں جن مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ ایثار و قربانی کا ایک درخشندہ باب اور ہر پیش آنے والی مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کے واقعات کا نقطہ آغاز ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کربلا کی درد ناک داستان کو محض بطور دن یاد کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ ہر اہل علم و شعور کیلئے ضروری ہے کہ وہ کربلا والوں کی شہادت کے فلسفے کو اچھی طرح سمجھے اور اپنی زندگی میں اس کی پاسداری کرے۔ یہ یاد رہے کہ واقعہ کربلا کا مقصد حصول اقتدار نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ تھاجو عمل کے بغیر ممکن نہیں ۔ واقعہ کربلا میں کئی اہم پیغامات پنہاں ہیں جن کو سمجھنا اور اختیار کرنا وقت کا تقاضا اور اہم ضرورت بھی ہے۔ ہمارا دینی فریضہ ہے کہ واقعہ کربلا سے جو پیغامات ملتے ہیں ، ان پر صدق دل ، حسن نیت اور عزم راسخ کے ساتھ عمل پیرا ہوں جو امام عالی مقام اور ان کے 72ساتھیوں کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ نواسہ رسول نے اپنی اور اہل خانہ کی قربانی پیش کرکے ثابت کردیا کہ اہل حق اپنا سر تو کٹاسکتے ہیں لیکن باطل کے سامنے جھکا نہیں سکتے۔ امام حسینؓ نے ایک عظیم مقصد اور ایک عظیم ترین نصب العین کے لئے شہادت کو گلے سے لگایا، امام عالی مقام نے اپنے آبائی وطن کو چھوڑا، حج جیسی عبادت کو عمرہ میں تبدیل کر دیا، تین دن کی بھوک و پیاس برداشت کی، خود اپنی اور اپنے رفقا کی قربانی دی، یہاں تک کہ اہل حرم کی اسیری برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ ان کے پیش نظر صرف خوشنودی خدا، بقائے دین، حفاظت شریعت اور تحفظ انسانیت تھی۔ بظاہر آپ کی شمع حیات بجھ گئی لیکن کربلا والوں کے مقدس لہو نے جہان بشریت کو عرفان کی منزل کا پتہ بتایا، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو بچا لیا، شرافت کو موت کے گھاٹ اترنے سے بچا لیا، ظلم و ستم کے سامنے قیام کرنے کی ہمت دی، حق اور باطل کے سامنے حد فاصل قائم کی۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ وہ حسینی استغاثہ پر لبیک کہیں، حسینؓ کی نصرت کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہیں۔ واقعہ کربلا پر آنسو بہانے والے ماتم داروں، غم گساروں اور نام لیوائوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر روح کربلا جذب کریں اور وہ زندگی گزاریں جس کی امام حسینؓ نے دعوت دی ہے اور وہ عمل کریں، جو امام عالی مقام نے کہا ہے۔ آج اگر پوری دنیا میں مسلمان مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان حسین ابن علیؓ کی سیرت طیبہ، ان کے ارشادات و فرمودات، ان کے کردار اور رفتار سے دوری اختیار کرکے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کربلا کے واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف فلسطین بلکہ کشمیریوں کی بھی بھرپور حمایت کرنی چاہئے۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت کی بے حسی فلسطینیوں کی اس حالت کی ذمہ دار ہے۔ ہر شہید ہونے والا بچہ اللہ کے حضور شکایت کرتا ہوگا۔ فلسطینی اس ظلم پر ہماری خاموشی کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔
یوٹیلٹی اسٹورز پر وزیر اعظم کا نیا ریلیف پیکیج
یوٹیلیٹی اسٹورز پر ریلیف کیلئے وزیراعظم کا نیا پیکیج ای سی سی کو بھجوا دیا گیا ہے۔ نئے ریلیف پیکیج کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دالوں اور چاول پرسبسڈی میں تین سو فیصد کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ دالوں اور چاول پر فی کلو 75روپے اور گھی کے فی کلو پر مزید 30روپے کا ریلیف دینے کی تجویز ہے۔ دال چنا اور ٹوٹا چاول پر فی کلو سبسڈی موجودہ پچیس روپے سے بڑھا کر ایک سو روپے اور گھی پر فی کلو سبسڈی ستر روپے سے بڑھا کر ایک سو روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ چینی پر بھی فی کلو کے حساب سے سبسڈی بڑھانے کا منصوبہ ہے البتہ آٹے پر سبسڈی کا موجودہ ماڈل برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے سمری ای سی سی کی منظوری کے لیے وزارت صنعت و پیداوار کو بھجوا دی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز پر وزیر اعظم کے نئے ریلیف پیکیج کے تحت دال چنا، ٹوٹا چاول، گھی اور چینی پر سبسڈی بڑھا کر شہریوں کو بنیادی اشیا پر مزید ریلیف دینے کا پلان ہے۔ تجاویز کی من و عن منظوری پر دال چنا اور ٹوٹا چاول پر سبسڈی کے حساب سے ریلیف موجودہ 25روپے سے بڑھ کر 100روپے اور گھی پر فی کلو ریلیف موجودہ 70روپے سے بڑھ کر 100روپے ہو جائے گا جبکہ چینی پر بھی سبسڈی بڑھانے کی تجویز ہے یعنی وفاقی حکومت سبسڈی کی صورت میں بوجھ برداشت کر کے شہریوں کو بنیادی اشیا سستے داموں فروخت کرے گی۔ عوام کے لیے حکومت کا یہ ریلیف اچھا سہی لیکن ارباب اختیار کو اس طرح کے ریلیف پیکیجز دیگر شعبوں میں دینے چاہئیں۔ جس طرح توانائی کے شعبے میں بلوں کی ادائیگی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت اگر بجلی کی قیمتوں میں کمی سے قاصر ہے تو اسے اپنے ٹیکس کم کرنے چاہئیں جب کہ یہ ٹیکس دیگر سیکٹر میں عائد کئے جا سکتے ہیں۔ ایک عام گھرانہ اپنا پیٹ کاٹ کر بجلی کے بل بھرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اب تو یہ نوبت بھی آ چکی ہے۔ کچھ گھرانوں میں بجلی کے بل ان کی آمدنی سے بھی تجاوز کر چکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ان چیزوں کا نوٹس لیتی لیکن اسے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی فکر ہے۔ اور اس چکر میں عوام دن بدن گھن کی طرح پستے جا رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں بھی ریلیف فراہم کرے۔

جواب دیں

Back to top button