Column

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں

تحریر : علیشبا بگٹی
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی، نوکری کی طلب لئے حاضر ہوا، قابلیت پوچھی گئی، کہا، سیاسی ہوں۔۔ ( عربی میں سیاسی، افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں)۔ بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص ’’ گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج ‘‘ بنا لیا۔ جو حال ہی میں فوت ہو چکا تھا۔ چند دن بعد ، بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا، اس نے کہا ’’ نسلی نہیں ہے‘‘۔ بادشاہ کو تعجب ہوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،، اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے۔ مسئول کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ہے؟؟؟ اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لیکر سر اٹھا لیتا ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا، مسئول کے گھر اناج، گھی، بھنے دنبے، اور پرندوں کا اعلیٰ گوشت بطور انعام بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دن بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی، اس نے کہا طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن ’’ شہزادی نہیں ہے‘‘، بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بھیجا، معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے۔ تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ہماری بیٹی 6ماہ ہی میں فوت ہو گئی تھی، چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا۔ بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، ’’ تم کو کیسے علم ہوا‘‘، اس نے کہا، اس کا ’’ خادموں کے ساتھ سلوک‘‘ جاہلوں سے بدتر ہے، بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا، بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں، بطور انعام دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا کچھ وقت گزرا، مصاحب کو بلایا، اپنے بارے دریافت کیا، مصاحب نے کہا، جان کی امان، بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:: ’’ نہ تو تم بادشاہ زادے ہو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے‘‘، بادشاہ کو تائو آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا، سیدھا والدہ کے محل پہنچا، والدہ نے کہا۔ ’’ یہ سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ‘‘۔ بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا، تجھے کیسے علم ہوا ؟؟؟ اس نے کہا، بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ہیرے موتی، جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں۔ یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں۔ کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے۔
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ہیں ۔۔۔ آخر کیوں ہماری عادتیں اور اخلاق اس قدر گراوٹ کا شکار ہیں۔ کہ ہماری حرکتیں اس بات کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔ کہ ہم کتنے خاندانی ہیں ؟ افسوس کہ آج کل کے اس نام نہاد معاشرے میں نہ ہمیں اپنے اخلاق کا پاس ہے اور نہ اپنی آنے والی نسلوں کی فکر۔ ہم اس بات سے قطع نظر کہ ہمارے منہ سے نکلے الفاظ دوسروں کو ہمارے خاندان اور نسل کا بتاتے ہیں، ہم بس اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ الفاظ کچھ بھی ہو بس ہماری بات سنی جائے چاہے تعمیری ہو یا تخریبی۔
سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ہوا تھا، دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ جن میں وزیر، مشیر، اولیائ، قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے۔ سب خاموش رہے دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں۔ سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں اک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچہ آپ کو اٹھانا ہو گا۔ سلطان نے شرط منظور کر لی۔ اس شخص کو چلہ کے لئے بھج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا۔ 6ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا۔ حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6ماہ مزید لگیں گے۔ مزید 6ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا؟، یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام ۔۔۔۔۔ میں نے آپ سے جھوٹ بولا، میرے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو رہا تھا بچے بھوک سے مر رہے تھے اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔۔۔۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے ؟ وزیر نے کہا اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔ دربار میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے، کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا۔ بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتائو۔ اس نے کہا سر اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کہ مرے اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے۔ دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا۔ بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال اک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا۔ اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کر دیں۔ اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔ ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا۔ ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔ سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے۔ بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے ایک قصائی کو وزیر بنا لیا۔ دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا آپ کی غلطی یہ ہے کہ ایسے شخص کو وزارت دی۔ جہاں ایسے لوگ وزیر ہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے۔۔۔۔۔
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو ایاز سیّد زادہ ہے، سیّد کی شان یہ ہے کہ وہ اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے مگر بدلہ لینے کا کبھی نہیں سوچتا۔۔۔ سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم آل ِرسول ہو، ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے۔ لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی اس کا ایک راز کھول دیتا ہوں۔ اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button