Column

کچے کے علاقے میں گرینڈ آپریشن کی منظوری

رفیع صحرائی
بالآخر کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ صدرِ پاکستان نے اس آپریشن کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ آئی جی پولیس پنجاب نے کچے کے علاقے کی صورتِ حال پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس آپریشن میں 11ہزار پولیس اہل کار حصہ لیں گے۔ پتا چلا ہے کہ ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی کمانڈ پاک فوج کرے گی۔
پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو اور بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں کئی یرغمالی مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران یہ ڈاکو 400 افراد کو اغوا کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت اور پولیس کے بلند بانگ دعووں اور ڈھائی سو کے لگ بھگ آپریشنز کے باوجود کچے کے مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ڈاکو پولیس کے خوف سے آزاد ہو کر وارداتیں کرتے ہیں۔ اب تک 11 پولیس اہل کار ان ڈاکوئوں کے ہاتھوں شہید اور اتنے ہی زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے 23 ڈاکو ہلاک کرنے کے علاوہ 160 کو گرفتار بھی کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35 سے 40 افراد ان ڈاکوئوں کی تحویل میں ہیں جبکہ آزاد ذرائع مغویوں کی تعداد 200 کے قریب بتاتے ہیں۔ آزاد ذرائع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں ڈویژنوں میں ہر ماہ 20 سے 30 افراد کروڑوں روپے تاوان ادا کر کے رہائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صورتِ حال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان جدید ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث اکیلی پولیس کا ان ڈاکوئوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کچے کے علاقے کے تین اطراف پولیس کے بے شمار تھانے اور چوکیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاک فوج کی کشمور چھائونی، پنوں عاقل چھائونی اور ڈیرہ بگٹی چھائونی بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ جدید ترین اور خطرناک اسلحہ ان ڈاکوئوں تک کیسے پہنچا جس میں راکٹ لانچر تک موجود ہیں۔ یہ ڈاکو اتنے دلیر ہیں کہ اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے یا دہشت قائم رکھنے کے لیے پولیس کی چوکیوں اور تھانوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ متعدد پولیس اہل کاران کو بھی یہ لوگ اغوا کر چکے ہیں۔
ریاست کے اندر ریاست بنا کر یہ ڈاکو ریاستی رٹ کو ہی چیلنج نہیں کر رہے بلکہ پولیس اور پاک فوج کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔
قبل ازیں نگران سندھ کابینہ نے 14 ستمبر 2023 کو ہونے والے اجلاس میں سندھ کے ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کے لیے بڑا آپریشن کرنے اور اسلحہ سمگل کرنے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ آپریشن رینجرز اور پولیس نے مل کر کرنا تھا مگر بوجوہ یہ آپریشن شروع نہ ہو سکا اور بتایا یہ گیا کہ دریائے سندھ میں سیلابی پانی کی وجہ سے کچے کا بڑا علاقہ زیرِ آب ہے اس لیے ادھر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بعد میں یہ آپریشن ملتوی کر دیا گیا تھا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق کچے کے علاقے میں 238 گائوں ہیں جن کی آبادی چار لاکھ ہے۔ سندھ پولیس نے کچے میں آٹھ تھانے اور 20 چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ پولیس کا منصوبہ ہے کہ کشمور، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے چاروں اضلاع میں دریائے سندھ کے خفاظتی بند کے ساتھ 390 پولیس کی چوکیاں قائم کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو جدید ہتھیاروں سے بھی لیس کیا جائے گا کیونکہ رپورٹ کے مطابق ڈاکوئوں کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے ملٹری گریڈ ہتھیار ہیں جو پولیس کی بکتر بند یا اے پی سی کے خلاف انتہائی موثر ہیں۔
اپریل 2016 میں کچے کے چھوٹو گینگ نے 22 پولیس اہل کاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ جوابی کارروائی میں سات پولیس والوں کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فوج سے مدد حاصل کی اور یہاں ’’ ضربِ آہن‘‘ کے نام سے گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا جس میں ڈاکوئوں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے تھے۔جس کے بعد چھوٹو نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اس کے بعد کچے میں ڈاکوئوں کی دہشت کا وقتی طور پر تو خاتمہ ہو گیا مگر یہ سکون صرف ایک سال برقرار رہا اور چھوٹو گینگ کی باقیات سمیت مزید گروہ نئے ناموں سے سامنے آ گئے۔ 2019اور 2021 میں بھی ڈاکوئوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے گئے ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ڈاکو بڑی تعداد میں علاقے سے فرار ہو جاتے ہیں اور بعد میں منظم ہو کر پھر کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکو اس قدر طاقتور نہیں ہیں کہ فوج اور پولیس کی مشترکہ کوشش کے سامنے ٹھہر سکیں۔ یہ گرینڈ آپریشن یقیناً کامیاب ہو جائے گا لیکن اصل مسئلہ آپریشن کے بعد ڈاکوئوں کو منظم ہونے سے روکنا ہے ۔ ان کا کچے کے علاقے میں دوبارہ داخلہ روکنا ہی اصل چیلنج ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کچے کے علاقے ہی کو کیوں منتخب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریائے سندھ جوں جوں جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی روانی سست ہو جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب وسعت کی وجہ سے یہ دریا کئی ندی نالوں میں منقسم ہو جاتا ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان جزیروں تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں انتہائی دشوار ہو جاتی ہے۔ یہی مشکل ڈاکوئوں کے لیے آسانی بن جاتی ہے۔ وہ یہاں پناہ گزیں ہو کر پولیس کی پہنچ سے بچے رہتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ محض بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے مگر پلوں کی عدم موجودگی کے باعث ان جزیروں میں ڈاکوئوں کی پناہ گاہوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
کامیاب آپریشن کر کے اگر یہاں سے ڈاکوئوں کو نکال بھی دیا جائے تو کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ یہاں پہنچ جائیں گے۔ مستقبل میں ڈاکوئوں کی رسائی سے ان جزیروں کو دور رکھنا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟۔ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی زعما ء کو سر جوڑ کر سوچنا ہو گا۔ اس عفریت سے نجات کا مستقل حل نکالنا بہت ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button