تجدید عہد سے تکمیل عہد
عابد ایوب اعوان
23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں ایک خواب کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے روح رواں کراچی کے ایک عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والے تاجر کے بیٹے اور برصغیر کے نامور قانون دان محمد علی جناحؒ تھے جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ انہوں نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو نظریے کے طور پہ پیش کیا اور ایک ایسے علیحدہ خطے کا مطالبہ کیا جہاں مسلمان اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اسی مقصد کے لیے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی اور عہد کیا گیا ’’ لے کر رہیں گے پاکستان اور بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ اس تجدید عہد کو وفا کرنے کے لیے محمد علی جناحؒ انتھک محنت، سیاسی بصیرت اور بیمثال قیادت کو بروئے کار لائے۔ اور اقبالؒ کے خواب کی تعبیر ڈھونڈی۔ لہذا 14اگست 1947ء کو ملک خداداد پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ اقبالؒ کا خواب قائد ملت محمد علی جناحؒ کی قیادت اور مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کے سبب شرمندہ تعبیر ہوا۔ پاکستان کا قیام دنیا کی تاریخ میں اہم واقعہ ہے۔ کراچی کے اس عام سے تاجر کے بیٹے اور برصغیر کے نامور قانون دان کے ہاتھوں قدرت نے ایک عظیم کام لینا تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور 7سال کی قلیل مدت کے بعد ان تھک محنت اور اپنی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے مملکت خداداد ریاست پاکستان کی بنیاد رکھ کر دنیا کے سامنے ایک تاریخ رقم کر دی اور یوں دنیا نے اس قانون دان کو قائداعظمؒ کے طور پر جانا، بانی پاکستان اور بابائے قوم مانا۔ امریکی مصنف اسٹانلے والپرٹ نے قائد اعظمؒ پر لکھی گئی سوانح حیات جناح آف پاکستان میں قائد اعظمؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ تھوڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ بدل پاتے ہیں ، اس سے بھی تھوڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل پاتے ہیں جبکہ بمشکل کوئی ایک شخصیت ایسی ہوتی ہے جس کو قومی ریاست کے معرض وجود میں لانے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے اور قائد اعظمؒ کو یہ تینوں اعزاز حاصل ہوئے۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قائد اعظمؒ نے مسلمانان برصغیر کی قیادت کرتے ہوئے 23 مارچ 1940 ء کو جو تجدید عہد کیا تھا اسے 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ریاست پاکستان کے وجود سے وفا کر دکھایا۔ اب ہر سال 23مارچ کو یوم پاکستان منا کر قوم اسی اقبالؒ کے دیکھے گئے خواب کے نتیجے میں منٹو پارک میں قائد اعظمؒ کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اپنے آبائو اجداد کے کئے گئے تجدید عہد کی یاد تو جوش و جذبے اور ولولے سے صرف ایک دن 23مارچ کو منا لیتی ہے مگر افسوس کہ پھر پورا سال اقبالؒ کے خواب کی حقیقی ترجمانی کرنے والے قائد اعظمؒ کے پاکستان کے ساتھ تکمیل عہد کی وفا کرنا بھول جاتی ہے۔ درحقیقت 23مارچ ہر سال تجدید عہد کی یاد دلاتا ہے مگر ملک خداداد کو دور حاضر میں جو اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں، ان کے تناظر میں یہی کہوں گا کہ تجدید عہد قصہ پارینہ ہو چلا اب یہ تکمیل عہد کا متقاضی ہے، 23مارچ 1940ء کو قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی جو کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان کی شکل میں قوم کو مل گیا مگر آج کے 23مارچ 2024ء کو اس ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے جو متحد ہو کر ایک ساتھ اس ملک کی ترقی و خوشحالی اور سلامتی کے لئے کام کرے۔ سب سے پہلے پاکستان کو اپنے سامنے رکھ کر اپنے آبائو اجداد کے 23مارچ والے تجدید عہد کے ساتھ وفا نبھاتے ہوئے اس ملک کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کرنے کے لئے عملی طور پر اپنے اپنے حصے کا ہر وہ کردار ادا کریں کہ جس سے اقبالؒ اور قائدؒ کے اس پاکستان کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش ہو سکے۔ 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور کے وسیع و عریض میدان میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں وطن عزیز کے آبائواجداد نے تجدید عہد کر کے 7سال کے بعد عظیم اور لازوال قربانیاں دیکر 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خودمختار ریاست مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں لاکر اپنے جس تجدید عہد کو وفا کر کے دکھایا تھا اب وطن عزیز کے آبائواجداد کی وہ روحیں یقینا 23مارچ 2024ء کو ہم سے بھی اپنے 23مارچ 1940ء کے اس تجدید عہد کے تکمیل عہد کی منتظر ہوں گی۔ 23مارچ 1940ء کو کیا گیا تجدید عہد آج کے 23مارچ 2024ء کو تکمیل عہد مانگ رہا ہے۔
کیا 23مارچ کو محض پریڈ گرائونڈ میں پریڈ دیکھنا، ملی نغموں سے لہو گرمانا یا سارا دن ٹیلی ویژن پر تقریبات دیکھنا عہد کی تجدید ہے؟ اب قوم کو عمل کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اس وقت اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم نسل نو کو پاکستان کے حقیقی تصور سے روشناس کرائیں۔ پاکستان کسی عسکری طاقت کی دین نہیں بلکہ قائد اعظمؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے، ہمارے آبائواجداد کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔ گویا یہ وطن عزیز ہمیں تھالی میں رکھ کر نہیں ملا۔ آج نسل نو جن آزاد فضائوں میں سانس لے رہی ہے اس کی قیمت بہت مہنگی دی گئی ہے۔ مائوں نے اپنے لخت جگر وار دیئے، سہاگنوں نے اپنے سہاگ لٹا دیئے، بہنوں نے اپنے بھائی وار دیئے۔ خوں دے کر اس چمن کی آبیاری کی گئی۔ اس ملک کو دھرتی ماں کا درجہ دیا۔ تن من دھن نچھاور کیا گیا۔ آزادی مل گئی۔ مگر آزادی کے بعد وطن عزیز کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش رچائی گئی۔ بھارت سے تین بڑی جنگیں لڑی گئیں اور بہادر سپوتوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ملکی دفاع پر آنچ نہ آئے۔ بیرونی خطرات کے ساتھ اندرونی سازشوں نے بھی وطن عزیز کو گھیرے رکھا۔ مذہبی تفرقات اور دہشت گردی ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی رہی مگر قوم متحد رہی اور ڈٹ کر بیرونی اور اندرونی سازشوں کا مقابلہ کیا۔ اور ثابت کر دیا ’’ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘۔
ریاست پاکستان کو اس وقت بھی اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ملک اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں من الحیث القوم ہر ادارے اور ہر فرد کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھا کر 23مارچ 1940ء کے اپنے آبائواجداد کے تجدید عہد کے ساتھ وفا کر کے تکمیل عہد کرنا ہے اور اس ریاست کو اقبال اور قائد کی حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنا کر دم لینا ہے۔ سرحدوں کے محافظوں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر جبکہ نظام حکومت چلانے والوں کو اپنے آئینی کردار میں رہتے ہوئے ریاست کے معاملات چلانے ہوں گے۔ اپنی اپنی بانسری بجانا ترک کر کے ایک پرچم کے سائے تلے متحد ہو کر اندرونی و بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے ثابت کرنا ہو گا کہ ہم سب ایک تسبیح میں پروئے دانے ہیں جو پاکستان کا ورد کرتے ہوئے اپنے مدار میں گھومتے ہیں۔