Column

جمہوریت اسلام نے کرہ ارض پر متعارف کرائی

نذیر احمد سندھو
سنو ٹی وی چینل کی عمر تو زیادہ نہیں مگر اپنی کم عمری کے با وجود اس کا شمار بڑے چینلز میں ہوتا ہے۔ پروگرام ( سیاست اور ریاست) کے عنوان سے جس کے ہوسٹ سعد نذیر صاحب ہیں۔ یو ٹیوب کے مطابق سعد نذیر بلیو ورلڈ سٹی کے چیئرمین ہیں۔ ہوسٹ نے عون پبی صاحب سے سوال کیا کہ پی ٹی آئی نے ریاست مدینہ سے فتح مکہ اور پھر جمہوریت کی گاڑی پر سواری کی، قرآن، حدیث کے مطابق جمہوریت کی توضیح تشریح کریں۔ سوال بہت گھمبیر اور تاریخی۔ پروگرام کے ہوسٹ سعد صاحب نے مسٹر عباسی اور عون پبی کو بطور پی ٹی آئی سپوکس پرسن کے جواب کی دعوت دی۔ عباسی صاحب گرفتار ہوئے پھر پریس کانفرنس کی اور پارٹی چھوڑ گئے اگر وہی ہیں تو ٹھیک ورنہ معذرت۔ عون پبی کا تعارف کراتا چلو ں۔ میں 1996ء کے پارٹی کے پہلے اجلاس میں شامل تھا جس میں میجر ریٹائرڈ بشیر کو پارٹی کا پہلا جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا لہذا جو کہہ رہا ہوں پی ٹی آئی سے واقفیت کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ خان صاحب جس پر برستے ہیں بارش کی طرح برستے ہیں عون پبی کو پہلے بیت المال کا ہیڈ بنایا گیا پھر سینیٹر بھی بنا دیا گیا دودھ تو خوب پیا خون پلانے کا وقت آیا تو بھاگنے والی صفِ اوًلین میں تھے۔ خان صاحب کہہ چکے ہیں بھاگنے والوں کے لئے پارٹی میں اب کوئی جگہ نہیں پھر یہ کیسے پارٹی کے موقف کی توضیح کر سکتے ہیں۔ سوال ہی نہیں سمجھ پائے جواب کیا خاک دیتے۔ لاہور میں پارٹی کے پہلے آفس واقعہ سی بریز گارڈن ٹائون نزد برکت مارکیٹ میں اشفاق ملک Paidورکر تھے یہ چوکیدار، چپڑاسی گیٹ کیپر، سٹور کیپر، ویسے خود کو پارٹی کا آفس سیکرٹری بھی بتاتا، پریس میں پارٹی کی خبریں بھی پہنچاتا یعنی multi purposesتھا، خان صاحب تنخواہ دیتے تھے لہذا یہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا ما سوائے ان کے جو کھانا کھلا دیتے، ورنہ یہ پنجاب کے صدر ایڈمرل جاوید اقبال کی بھی توہین کر دیتا، خان صاحب اس پر بارش کی طرح مہربان تھے، مصدقہ تو نہیں مگر سننے میں آیا ہے بنی گالہ میں خان صاحب کے بیڈ میں جاسوسی کے آلات فکس کرنے کے لئے بھی یہی بکا تھا، خان نے اسے نوکری سے تو نکال دیا مگر پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ سیکنڈ تجزیہ کار مسٹر عباسی نے تو پروگرام کو سیاسی اکھاڑہ بنا دیا جذبات بھی بھر دئیے تالیاں بھی وصول کیں جمہوریت کی منفی عرفیت کا فارمولا سنا دیا اقبالؒ کے شعر، جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے، جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی کا انتخاب جیت کر یہ بھی کہا تھا، آتا ہے سلطان جمہور کا زمانہ، جو طرز کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
اب آتے ہیں اصل موضوع یعنی سوال کی طرف، جیسے میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں سوال بہت گھمبیر ہے، ہوسٹ کی اسلام سے محبت اور علمیت کا غماز ہے ، جواب تاریخی حوالوں سے تصدیق طلب تھا مگر جواب دینے والے سوال کی علمی گہرائی سے ہی نا بلد تھے۔
دنیا بھر کے سکالرز جن میں مسلمان شامل نہیں جمہوریت کی جڑیں تلاش کر رہے ہیں اور خواہش اور کوشش ہے کہ اسلام کو بائی پاس کرکے کوئی اور راہ ڈھونڈ لی جائے تا حال کامیابی نہیں مل رہی۔ یونان جو ماضی میں علمیت کا سب سے بڑا گہوارہ مانا جا تا ہے پر ریسرچ ہوئی اور تاحال جاری ہے ارسطو، پلوٹو، سقراط کا یہ ملک علمی لحاظ سے بہت زرخیز رہا ہے۔ 6صدی قبل از مسیح کے متعلق کچھ شواہد اس طرح ملے Malanthid dynastyکے بادشاہPandion2 کے دور میںsolonنامی ایک Law makerنے جمہوری نظریات پیش کیے۔ حیرت ہے solonآج کی دنیا کے لاء میکر کی طرح ذہین تھا اس نے قبل از عیسوی600سال قبل اسمبلیecclesiaکا نظریہ پیش کیا۔ ریاست کے روزانہ کے کاروباری معمولات کیلئے بھی Bouleکے نام سے ادارہ متعارف کرایا جسے آج کل Exectiveکہا جاتا ہے ،dicasteriaکے نام سے عدالتی نظام تھا۔ یہ سسٹم دو صدیوں تک تو چلا پھر شاہی جلال کے نیچے دب گیا۔ اس سسٹم کے ریسرچر بھی مانتے ہیں یہ سسٹم عملا ًعوامی نہیں تھا اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔solonکے متعارف کردہ اداروں کے نشانات سے ماڈرن Law makersنے ان کے وجود سے ادارے بنانے کیلئے روشنی تو ضرور حاصل کی ہو گی اس سسٹم کو Roadto democraاورsolonکوfather of democracyبھی کہہ سکتے ہیں مگر اس سسٹم کا اس دور میںعملاًکوئی نفاذ نہیں تھا اور نہ ہی یہ عوام کی فلاح کے لئے تھا۔solonنے بادشاہ کو محصول بڑھانے اور عوام پر شاہی گرفت مضبوط رکھنے کا مشورہ دے کر یہ ادارے بنوائے اور عملاً بھی ان کا یہی استعمال تھا۔ جمہوریت جسےfor the peoplesکہا اور مانا جاتا ہے اس جمہوریت کی طرفٗ اس اولڈ سسٹم سے کوئی سڑک نہیں آتی۔ رومن شاہی نظام کے اداروں کو بھی مغرب جمہوریت کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر بات بنی نہیں۔ یہ بھی کہا گیا پرانے مصر میں بدوقبائل میں کسی قبیلے کا سردار لا وارث فوت ہو جاتا تو قبیلے کے سب لوگ اکٹھے ہو کر اپنا سردار منتخب کرتے، یہی بات انڈیا کے خانہ بدوش قبائل سے نتھی کی جاتی ہے کہ جب انکا مکھیا ( سردار) لا وارث فوت ہو جاتا تو تمام قبیلے کے لوگ ایک کھلے میدان میں اکٹھے ہو کر نئے مکھیا کا انتخاب کرتے مگر دونوں کی کوئی عملی شہادت نہیں ملی ان eventsکے کسی کردار کا نام نہیں۔ دوسرے پاور کبھی لاوارث نہیں ہوتی اگر کوئی سردار لاوارث ہو بھی تو قبیلے کے طاقتور لوگ سردار کے ارد گرد رہتے ہیں سردار بھی طاقتوروں کو ساتھ ملا کر ہی اپنی طاقت میں اضافہ کرتا ہے اور سردار کی موجودگی میں ہی طاقتور اپنی جگہ بنا لیتا ہے سردار کی وفات کے بعد وہی سردار بن بنتا ہے جو سردار کے نیٹ ورک میں سب سے طاقتور ہو لہذا اس دلیل میں بھی وزن نظر نہیں آیا۔ لائف آف محمدؐ نامی کتاب کا مصنف، ولیم میورلے نے اپنی اسلام سے تمام تر عصبیت کے باوجود ہمیشہ کہا جمہوریت کی جڑیں ( سقیفہ بنو ساعدہ ) سے ہی ملیں گی اور کہیں نہیں ہیں۔
اب آتے ہیں سقیفہ بنو ساعدہ کیا ہے، کہاں ہے اور جمہوریت کی جڑیں سقیفہ بنو ساعدہ میں ہی کیوں ہیں۔
حضرت محمدؐ نے اپنے فالورز کو ہمیشہ تلقین کی وہ دین سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں۔ ان کی کوشش تھی کوئی ٹھیکیدار ان کی شریعت میں دین سکھانے کے نام پر نہ گھس جائے، جیسے حضرت عیسیٌٰ کی شریعت میں پادری اور حضرت موسیٰ ٌکی شریعت میں رابی گھسا اور عیسیٰ ٌ کے نام پر اپنے کاروباری نظریات ٹھونسے۔ حضرت محمدؐ وصال سے قبل بیمار پڑ گئے اور انہوں نے صحابہؓ کو نصیحتّیں، وصیتّیں فرمائیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا میرا غسل، کفن، دفن میرے اہل خانہ فرمائیں، اس وصیت کا مقصد بھی دین سکھانا ہی تھا، جب کوئی آپ کا پیارا فوت ہو جائے تو آپ خود غسل دیں، کفن پہنائیں اور دفن کریں، اسلامی طریق آپ کو آنا چاہیے، نماز پڑھنا، پڑھانا، نماز جنازہ، اذان دینا سب مسلمانوں کو آنا چاہیے۔ اہل خانہ میں قریب ترین حضرت علیؓ اور بنو ہاشم تھے لہذا حضرت علیؓ جسد رسولؐ کے غسل میں مشغول ہو گئے۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد جو ہزاروں پر مشتمل تھی وہ حضرت علیؓ کے گھر کے باہر کھلے میدانوں میں بیٹھ گئے۔ لوگ رو رہے تھے، گریہ زاری کر رہے تھے ایک مسلمان کھڑے ہو کر زور زور سے رونے لگا آہ و بکا کرنے لگا اور کہنے لگا یہ ممکن نہیں محمدؐ کو موت آئے وہ اللہ کے پیغمبرؐ ہیں وہ اللہ سے ہم کلام ہوتے تھے انہیں کیسے موت آسکتی ہے حضرت ابو بکر اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور مسلمانوں سے مخاطب ہوئے حضرت محمدؐ اللہ کے پیغمبرؐ تھے خاص بندے مگر انسان بھی تھے اور تمام انسانوں کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
لہذا کوئی ایسی بات نہ کریں جو دین کے خلاف ہو ۔ وہ ابھی کھڑے ہی تھے کہ ایک صحابیؓ بھاگتے ہوئے ان کے قریب آئے اور کہنے لگے سقیفہ بنو ساعدہ کے میدان میں لوگ انصار سعد بن عبادہ کی قیادت میں جمع ہیں اور بطور خلیفہ رسول ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں وہاں مہاجرین کی بھی بہت بڑی تعداد جمع ہو چکی ہے وہ انصار کو روک رہے ہیں، ماحول بہت گرم ہے، قبل اس کے تلواریں بے نیام ہو جائیں آپؓ جا کر معاملہ سلجھائیں۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓ اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے ہمراہ چل پڑے۔ ہزاروں لوگ جو تدفین رسولؐ کے لئے جمع تھے وہ بھی ہمراہ ہو لئے۔ سقیفہ بنو ساعدہ کے میدان میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ یہ اجتماع خود بخو دو سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو گیا، مہاجر پارٹی جس کے پارلیمانی لیڈر ابو بکرؓ تھے جبکہ انصار پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سعد بن عبادہؓ ٹھہرے۔ سعد بن عبادہؓ نے تقریر کا آغاز پہاڑ کی بلندی پر کھڑے ہو کر کیا، فرمانے لگے ہم انصار نے دین اور نبیؐ کو سہارا دیا لہذا امارت پر حق ہمارا بنتا ہے، امیر ہم انصار سے ہو گا۔، ہماری خدمات اسلام کے لئے زیادہ ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ زیادہ خدمت کریں گے۔ حضرت ابو بکرؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا ہم آپؓ کی خدمات کو تسلیم کرتے ہیں مگر رسولؐ اللہ نے نبوت کا اعلان مکہ میں کیا اور ہم مہاجرین نے ان کی نبوت کو تسلیم کیا سزائیں ہم کو ملیں ہم نے ہجرت مدینہ کی طرف رسولؐ کے ساتھ کی اپنے گھر جائیدادیں چھوڑ کر دین کے لئے ہجرت کی ہم اہل مکہ تھے، آپ سے بہتر تھے مگر ہم نے سب آسائشیں دین کیلئے قربانی کیں ہم اوًلین میں ہیں آپ انصار ثانی ہیں امارت پر پہلا حق ہمارا ہے مشاورت اور وزارتوں پر آپ کا حق ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اے اہل انصار آپ نے سنا نہیں تھا رسولؐ اللہ نے مہاجروں کو خطاب کرتے فرمایا تھا آپ جب مسلمانوں کے امیر بن جائو تو انصار سے حسن سلوک سے پیش آنا ان کا رسولؐ پر بڑا حق ہے، اگر امیر آپ سے بنانا مقصود ہوتا تو وہ وصیت آپ کو مخاطب کرکے فرماتے مہاجرین سے حسن سلوک سے پیش آنا بہت سے لوگوں نے کہا یہ سچ ہے ہم نے رسولؐ سے سنا۔ انصاری سردار حباب بن المنذرالجموع نے عوام کو خطاب کیا اور تجویز دی دو امیر منتخب کر لیے جائیں ایک انصار سے، ایک مہاجرین سے، ساتھ ہی کہا اگر یہ تجویز بھی مہاجر نہیں مانتے تو پھر انصار تلواریں نکالیں اور مہاجرین کو اپنے شہر سے نکال باہر کریں، دین کی اشاعت ہماری مدد سے ہوئی امارت پر حق انصار کا ہے۔ اس موقع پر حباب المنذر اور عمر بن خطاب کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ عبید اللہ بن الجراحؓ نے خطاب میں کہا اے قوم انصار خدا کا خوف کرو تم نے دین کی مدد کی اور اب تم دین کو نقصان پہنچانے والے نہ بنو۔ ماحول کو شدید گرم دیکھ کر انصاری بشیر بن سعد بن نعمان اٹھے اور پہاڑ پر چڑھ کر مخاطب ہوئے سنو سنو میں انصاری ہوں مگر انصار کی بات کرنے نہیں آیا کسی کی بھی بات کرنے نہیں آیا سچ کہنے آیا ہوں۔ بشیر بن سعد کی وجہ شہرت ایک عقلمند اور بردبار آدمی کی تھی لوگ اکثر ان سے مشورہ لیتے، لوگ متوجہ ہوئے انہیں بشیر بن سعد سے بہتری کی امید تھی۔ بشیر بن سعد نے کہا مسلمانوں سنو مہاجر کہتے ہیں ہم نے دین کی زیادہ خدمت کی، انصار کہتے ہیں ہم نے دین کی زیادہ خدمت کی، یقیناً سب نے خدمت کی نہ انصار مہاجرین کی خدمت سے انکاری ہیں نہ مہاجرین انصار کی، سب نے خدمت کی تو آج ہم سب یہاں تک پہنچے ہیں اپنے امیر کا انتخاب کر رہے ہیں انصار کہتے ہیں ہمارا امارت پر حق ہے مہاجر کہتے ہیں ہمارا امارت پر حق ہے یقینا دونوں کا حق ہے مگر میں کہتا ہوں مہاجرین کا زیادہ حق ہے کیونکہ رسولؐ اللہ بھی مہاجر تھے اس پر تالیاں لگیں بشیر نے لوگوں کا مثبت موڈ دیکھا تو پہاڑ سے اتر کر ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی جس پر سب ابو بکرؓ کی طرف چل پڑے اور انصار مہاجرین سمیت سب مسلمانوں نے بیعت کر لی یعنی ابو بکرؓ کو اپنا امیر منتخب کر لیا۔ ایک رائے ہے سعد بن عبادہؓ نے بھی بیعت کر لی مگر طبری لکھتے ہیں سعد اسی شام اپنا سامان اونٹوں پر ڈال کر شام کی طرف چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں لوٹے۔ جو مسلمان سقیفہ بنو ساعدہ میں شامل نہیں تھے، انہوں نے تنقید کی ان میں حضرت علیؓ بھی تھے مگر سب جلد ہی امارت کا حصہ بن گئے۔ سقیفہ بنو ساعدہ میں ایک مکمل الیکشن کلچر کا سماں تھا، پارٹیاں تھیں منشور تھے خدمات کا موازنہ تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ خلافت تھی جمہوریت نہیں۔ لفظ خلیفہ خلافت کا سورس ہے ، قرآن کے مطابق انسان زمین پر اللہ کا نمائندہ ہے یعنی تمام انسان زمین پر اللہ کے نمائندے ہیں۔ عوام کا منتخب خلیفہ عوام کا نمائندہ ہے، آپ اسے اپنی اپنی زبان میں کوئی نام دے دیں، صدر کہہ لیں،president کہہ لیں یا خلیفہ بنیادی شرط ہے عوام کا منتخب ہو کسی کا بھی نامزد نہ ہو۔ خلافت، جمہوریت، ڈیموکریسی، مختلف زبانوں کے الفاظ ہیں سب کی بنیادی شرط ایک ہی ہے عوام کی منتخب حکومت ہو۔ جو لوگ کہتے ہیں اسلام میں جمہوریت نہیں تو پہلے یہ بتائیں، خلافت کے پھر معنی کیا ہیں دوسرے اسلام کا سیاسی نظام جمہوریت نہیں تو پھر اور کیا ہے، خلیفہ کیسے تعینات ہو گا کیا اسلام میں موروثیت ہے، نہیں۔ دنیا میں اسلام نے ہی جمہوریت متعارف کرائی اور یہ مشیت ایزدی تھی ورنہ رسولؐ اللہ کسی صحابیؓ کو اپنی زندگی میں اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کر دیتے۔ حضرت ابو بکرؓ زمین پر پہلے جمہور کے منتخب جمہوری حکمران تھے اس سے قبل زمین پر کسی نے عوام کا منتخب حکمران نہیں دیکھا۔ جو لوگ کہتے ہیں اسلام میں جمہوریت نہیں وہ بتائیں کیا ابوبکرؓ کا انتخاب غیر اسلامی تھا۔ اسلام کا سیاسی نظام جمہوریت ہی ہے اسلام میں جمہوری حکمران عوام اور خدا دونوں کے سامنے جوابدہ مانا جا تا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ زمین پر پہلے حکمران تھے جن کو جمہور نے منتخب کیا اور ان کی حکومت ہر لحاظ سے جمہوری تھی۔ حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے ساتھ ہی اس سورج کی روشنی ماند پڑنا شروع ہو گئی جو سقیفہ بنو ساعدہ میں طلوع ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ ابو بکرؓ کے نامزد تھے تاویل کوئی بھی ہو عمرؓ نامزد تھے۔ حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا وفات سے قبل انہوں نے 6رکنی کمیٹی برائے انتخاب خلیفہ بنا دی تھی جن کے سامنے دو نام تھے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ، کمیٹی نے عبدالرحمان بن عبد مناف کو مقرر کیا وہ ان دونوں صاحبان کے متعلق لوگوں کی رائے جانیں، وہ تین دن تک مدینہ کی سڑکات اور شاہراہوں پر جن پر دوسرے شہروں علاقوں سے لوگ مدینہ کی طرف آتے تھے رائے پوچھتے رہے۔ تین دن کے بعد وہ واپس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور رائے دی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ان دونوں بزرگوں کا لوگوں میں بہت احترام ہے مگر میری رائے میں حضرت عثمانؓ کو خلیفہ ہونا چاہئے اور یوں حضرت عثمانؓ خلیفہ نامزد ہو گئے۔ حضرت عمر کی وسیع عریض حکومت تھی مگر عبدالرحمان نے سروے صرف مدینہ کے لوگوں سے کیا۔ گو یہ ایک فرد کی رائے تھی مگر جمہوریت کی جڑیں تلاش کرنے والے حضرت عثمانؓ کی تعیناتی کو بھی جمہوری روایات کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ کم سہی لوگوں کی رائے شامل ضرور تھی۔ حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے درمیان فیصلہ جنگوں نے کیا۔ سلطنت مدینہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی حضرت علیؓ اور حسنؓ کی شہادت کے بعد امیر معاویہؓ مکمل حکمران اور پھر بادشاہ بن گئے انہوں نے خود کہا ( انا اوّل الملوک) میں پہلا بادشاہ ہوں یزید کو ولی عہد مقرر کرکے انہوں وراثت شامل کرکے شاہی روایات کو مکمل کر دیا ۔ حضرت ابوبکرؓ کی جمہوری خلافت اور سقیفہ بنو ساعدہ میں روشن ہونے والے جمہوری سورج کی روشنی آہستہ آہستہ بجھتی بجھتی یزید کی بادشاہت پر گُل ہو گئی۔ قارئین میں نے یہ شہادتیں کسی ایرے غیرے نام نہاد مورخین کی غیر مصدقہ کتابوں سے نہیں لیں یہ تمام شہادتیں بابائے تاریخ ابن خلدون کی کتاب تاریخ خلدون سے لی ہیں تاریخ خلدون کو اسلام پر اتھارٹی مانا جاتا ہے دنیا کی ہر زبان میں اسکا ترجمہ ہو چکا ہے اور دنیا کی ہر لائبریری میں موجود ہے۔ دنیا کی ہر یونیورسٹی جہاں تاریخ اسلام پڑھائی جاتی ہے وہاں یہ کتاب موجود ہے اور پڑھائی جاتی ۔

جواب دیں

Back to top button