قیام پاکستان اور ہمارے رویے
امتیاز احمد شاد
کسان ہو یا مزدور، سرمایہ دار ہو یا زمین دار، تاجر ہو یا گاہگ، مذہب ہو یا سماج، سیاسی جماعتوں سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک، پارلیمان سے اعلی عدلیہ تک غرض پاکستان میں ہر گوشہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد دست و گریبان ہیں۔ سب کے سب دوسرے کو زیر کرنے کے لئے ہر وہ حد پار کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کو اخلاقی، مذہبی، قانونی یا آئینی ریڈ لائن کہا جاتا ہے۔ کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ پاکستان کیوں معرض وجود میں آیا تھا اور اس کے بنانے والوں کے ذہن میں کیا تصور تھا؟ بلاشبہ پاکستان کا 27رمضان کو قیام نہ صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک نایاب تحفہ تھا بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے ایک معجزہ بھی تھا۔ اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے برصغیر پاک و ہند پر غالب آجانے کے بعد مسلمانوں پر زمین اس قدر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی کہ پورے ہندوستان کے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ مخالف قوتیں خاص کر ہندو انھیں ہر ممکن طریقے سے غلام بنانے اور دین اسلام کو خیرباد کرنے پر مصر ہیں اور اس کی وجہ ان حالات و واقعات کا تسلسل تھا جو کہ مسلمانوں کے ساتھ جاری تھے مثلاً بنکم چیٹرجی نے ’’ بندے ماترم‘‘ کا ترانہ اس تصور کے ساتھ پیش کیا کہ بھارت ماتا! ہم تیرے بندے ہیں۔ یہ ترانہ قیام پاکستان کے بعد بھی مسلمانوں کو پڑھنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ اسی طرح ’’ برہمو سماج‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جو اکبر بادشاہ کے ’’ دین الٰہی‘‘ کا دوسرا رخ کہا جاسکتا تھا۔ رام موہن رائے نے بھی اسی طرز پر ایک ادارے کی ’’ مجلس ایزدی‘‘ کے نام سے داغ بیل ڈالی۔ اس کے بعد دیانند سرسوتی نے ’’ آریہ سماج‘‘ کی پرتشدد تحریک شروع کی، جس میں کھل کر کہا گیا کہ ہندوستان صرف ہندوئوں کا ہے، یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں لہٰذا مسلمان یا تو ہندو بن جائیں یا پھر ہجرت کرکے چلے جائیں۔ اسی تحریک کے تحت آر ایس ایس بنائی گئی جو ایک انتہا پسند ہندو جماعت تھی۔ اس کے علاوہ ’’ شدھی‘‘ کی تحریک شروع کی گئی جس کا مقصد مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانا بتایا گیا۔ اس تحریک سے میوات کے علاقے میں مسلمانوں کو تیزی کے ساتھ ہندو مذہب قبول کرایا گیا۔ پھر سنگھٹن تحریک کے ذریعے تمام ہندوئوں کو جمع کیا جانے لگا۔ اس قسم کے پس منظر میں مسلمان اکابرین کو ہی نہیں عام مسلمانوں کو بھی شدت سے احساس ہونے لگا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے درحقیقت ظاہراً ہیں عملاً کچھ اور ہے۔ اس بات کا اندازہ بہت پہلے سر سید احمد خان کو تو ہو ہی گیا تھا مگر علامہ اقبالؒ جیسے شاعر و مفکر رہنما کو بھی جلد احساس ہوگیا، چنانچہ انہوں نے اپنی اس کہی ہوئی بات کہ: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا کی نفی خود ان اشعار کے ساتھ کردی کہ: سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے، تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے۔ پتھر کی مورتوں میں سمجھتا ہے تو خدا ہے، خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے۔
ہمارے ہاں آج بہت سے لوگ رائے دیتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے رہنمائوں کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے لیے صرف ایک خطہ زمین حاصل کرنا تھا۔ اس سلسلے میں دیکھیے کہ علامہ اقبالؒ نے جب حالات کا مشاہدہ کیا اور ہندوئوں کی مختلف تحریکوں مثلاً سنگھٹن تحریک کو دیکھا تو کھل کر کہا: نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے، اے مصطفویؐ خاک میں اس بت کو ملادے۔ بہت سے لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اس ملک میں اسلامی نظام لانے کی بات خوامخواہ کی جاتی ہے، قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ ایک روشن خیال شخصیت کے مالک تھے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے اکابرین بے شک روشن خیال تھے لیکن ان کی یہ روشن خیالی دائرہ اسلام کے اندر تھی۔ ان کے کہے گئے الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو ان کے علیحدہ وطن کے قیام کے تصور کو نہایت واضح کرتے ہیں، مثلاً علامہ اقبالؒ نے جب علیحدہ وطن کی بات پیش کی تو وہ کچھ ان الفاظ میں تھی۔’’ میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کر سکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روح عصر سے ہم آہنگ کر سکے‘‘۔ قائداعظمؒ، علامہ اقبالؒ کے لیے کیا خیالات رکھتے تھے اس کا اندازہ قائد اعظم کے ان الفاظ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے علامہ اقبالؒ کے انتقال پر ادا کیے۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ: ’’ وہ میرے ذاتی دوست، فلسفی اور رہنما تھے، وہ میرے لیے تشویق، فیضان اور روحانی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے‘‘۔ اسی طرح 1940ء میں جب اقبال ڈے منایا گیا تو قائداعظمؒ نے ان الفاظ کو ادا کیا۔’’ اگر میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے حصول تک زندہ رہا اور اس وقت مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ میں اقبالؒ کے کلام اور مسلم ریاست کی حکمرانی میں سے ایک کا انتخاب کر لوں تو میں اقبالؒ کے کلام کو ترجیح دوں گا‘‘۔
یہ اقتباسات واضح کر رہے ہیں کہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے اکابرین کے علیحدہ وطن اور اس کے تشخص و مستقبل کے بارے میں کس قسم کا نظریہ تھا۔ اقبالؒ کی تیسرے دور کی تمام شاعری کیا پیغام دے رہی ہے؟ سب جانتے ہیں، لہٰذا قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کے لیے محض زمین کا ایک ٹکڑا لینا تھا اور بس! قطعی طور پر غلط، غلط اور غلط ہے۔ ہمارے اکابرین کے جو بھی نظریات تھے مگر ایک بات واضح ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایسا زمین کا ٹکڑا لے کر دینا چاہتے تھے جہاں اسلامی دستور کا مکمل نفاذ ہو، انسانوں کا معیار مال و دولت کے بجائے کردار ہو۔ مگر افسوس صد افسوس ہم نے وہ سب بھلا دیا۔ عجیب و غریب خرافات اور اختلافات کا شکار ہو گئے۔ شاندار خیالات پر قائم ہونے والی ریاست کا آج یہ حال ہو چکا ہے کہ آئین اور قانون ایک مخصوص طبقے کے گھر کی لونڈی بن چکے۔ جس ریاست اور اس کے باشندوں نے دنیا کی امامت کرنا تھی وہ ریاست مفلوک الحال ہو چکی۔ اس کے باشندے آٹے کے حصول کے لئے لائینوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جن ریاستی اداروں نے ریاست کو مضبوط کرنا تھا وہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے تمام حدیں پار کر چکے۔ اپنی اپنی انا اور ہٹ دھرمی کے خول میں قید چند افراد نے ریاست پاکستان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا۔ ہمارے پاس رمضان المبارک ایک بار پھر مہمان بن کر آرہا ہے جس میں مملکت خداداد وجود میں آئی۔ ابھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں، ضد، انا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑیں وطن عزیز کی فکر کریں۔ جس قدر آج معاشرے کے ہر شعبے میں تقسیم نظر آتی ہے ایسی تقسیم شاید قیام پاکستان سے پہلے بھی نہ تھی۔ بطور قوم ہمیں اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اتحاد، ایمان، تنظیم ایسے خوبصورت نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی آج اشد ضرورت ہے جو قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کے وقت لگایا تھا۔ اگر اتحاد، ایمان، تنظیم کو نہ اپنایا گیا تو یقین مانیں بقول علامہ اقبالؒ
ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔