Columnمحمد مبشر انوار

آئی ایم ایف کو خط

محمد مبشر انوار
مادر وطن پاکستان کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ جنہیں اس حالت کاادراک ہونا چاہئے، جنہیں ان کا تدارک کرنا چاہئے ،وہ ذاتیات و انا پرستی کے ہاتھوں ،اپنی ذات کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔یا دوسری صورت یہ ہے کہ جنہیں اس کا تدارک کرنا ہے وہ خود بھی اس کے مستقبل سے ناامید ہو چکے ہیں یا ان کی ایسی مجبوریاں ’’ اپنوں اور غیروں‘‘ کے ہاتھ آ چکی ہیں کہ وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سب میں نقصان پاکستان کی خودمختاری و سالمیت کا دکھائی دے رہا ہے،ویسے تو خودمختاری و سالمیت کی تعریف پر ریاست پاکستان بہت عرصہ سے پوری اترتی دکھائی نہیں دے رہی،دفاعی اعتبار سے چند ایک مواقع ہی ایسے نظر آتے ہیں کہ ریاست نے ایک مخصوص حریف کومنہ توڑحواب دیا ہے جبکہ دیگر معاملات سیاسی و سماجی و معاشی اعتبار سے ریاست کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔معاشرے کو اکٹھے رکھنے میں سب سے بنیادی ضرورت مساوی مواقع و انصاف کی یقینی ہوتی ہے،جو اس وقت ہمارے معاشرے میں ناپید نظر آ رہی ہے،جس کے باعث شہری دن بدن اس نظام سے تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔سیاسی معاملات پر نظر دوڑائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اور اس کے بڑوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ یہاں صرف دو بڑے سیاسی خاندان ہی برسراقتدار رہے گے،خواہ کچھ ہو جائے،جبکہ ان بڑے سیاسی خاندانوں میں سے بھی ایک خاندان کو سندھ تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ دوسرے کو تمام تر کوششوں کے باوجود برتری حاصل نہیں ہو سکی۔دیگر علاقائی جماعتوں کو تھوڑی تھوڑی نشستیں دے کر ،بڑی سیاسی جماعتوں کو مجبورا ان چھوٹی سیاسی علاقائی جماعتوںسے اتحاد کرنا پڑتا ہے تا کہ وہ حکومت بنا سکیں لیکن ایسی حکومت سازی میں حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہمہ وقت لرزتی رہتی ہے جبکہ پس پردہ بااختیار اس سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔سماجی اعتبار سے ،سیاسی رواداری نا پید ہوتی جار ہی ہے،سیاسی جماعتوں کے غیر سیاسی قائدین کا اپنا طرز عمل اپنے سپورٹرز کو یہ راستہ دکھاتا ہے،مذاکرات ،باہم گفت و شنید سے اعراض ،نچلی سطح تک سرایت کر چکا ہے،عدم برداشت حد سے زیادہ ہو چکی ہے،جس نے عوام کو تقسیم کر دیا ہے۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم ان مسائل سے،جو ناقابل حل قطعی نہیں ،نکلنے سے قاصر ہیں کہ اس وقت ایک طرف ایسی سیاسی قیادت معرض وجود میں آ چکی ہے ،جو فقط اپنے آپ کو ہی پاکستان سے مخلص سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان کو اس حال تک پہنچانے والوںکا سخت محاسبہ کرتے ہوئی،پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واگذار کروائی جائے۔ یہ ایسا خواب ہے،جسے دیکھنے والے کو،سٹیٹس کوکے حامیوں اور ریاستی وسائل لوٹنے والوں نے اپنا اولین دشمن قرار دے کر، ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس شخص پر،اس کی پارٹی پر پل پڑی ہے۔
عمران خان کے لئے اقتدار اس وقت تک شجر ممنوعہ رہا جب تک حسب روایت اس نے مقتدرہ کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا، دوسری طرف عمران خان کا یہ موقف ہے کہ 2018کے انتخابات میں بھی اسے دھاندلی کے ساتھ ناکام کیا گیا تھا،بہرطور جو بھی معاملات رہے،عمران خان کو اقتدار حاصل ہو گیا۔اب پس پردہ معاملات بتدریج باہر آتے جار ہے ہیں اور دنیا کو یہ علم ہو رہا ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کی وجوہات کیا تھی،ان میں پہلی وجہ تو یہ تھی کہ کسی طرح عمران خان کے مزاج کو استعمال کرتے ہوئے،اس سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا باب کھولا جائے تو دوسری طرف یہ بھی مد نظر تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں لا کراسے باور کرا دیا جائے کہ اقتدار کا راستہ کہاں سے گزرتا ہے۔پاکستان کی معاشی صورتحال کی ابتری کوئی ایک دن میں ممکن نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ہوس زر کے پجاریوں کی و ہ کارستانیاں رہی ہیں کہ ان کی ذاتی ہوس نے آج پاکستان کو اس صورتحال سے دوچار کررکھا ہے،قرض کی مے پیتے پیتے،پاکستانی معیشت کو بستر مرگ پر پہنچانے کے باوجود،ان زرپرستوں کی ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔آج بھی وہی ٹولہ اقتدار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑاہے کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار ان کو ملنا چاہئے تا کہ وہ پاکستان کو لوٹنے کی رہی سہی کسر بھی پوری کر سکیں۔
بہرکیف دوسری طرف اگر عالمی مالیاتی نظام کو دیکھیں تو اس میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور عالمی ادارے دنیا بھر کے مالی معاملات کو شفاف رکھنے کے لئے اپنے جتن کررہے ہیں۔ مالی معاملات کی شفافیت درحقیقت آج عالمی امن سے وابستہ ہو چکی ہے گو کہ اس کا سارا زور او ر محور اسلامی ممالک کے گرد ہی گھومتا نظر آتا ہے جبکہ دیگر ممالک سے عالمی طاقتیں بالعموم صرف نظر کرتی دکھائی دیتی ہیںاور کسی حد تک عالمی امن کو درپیش خطرات میں اس امتیازی سلوک کا حصہ واضح ہے لیکن چونکہ ان عالمی مالیاتی اداروں پر کنٹرول انہی عالمی طاقتوں کا ہے،اس لئے وہ اپنی مرضی کے عین مطابق ان کو استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔یہاں ایک اور امر کی وضاحت برمحل دکھائی دیتی ہے کہ ماضی میں پاکستان آمریت کے زیر سایہ بھی رہا ہے اور بالعموم ان ادوار میں پاکستانی معیشت بہتر دکھائی دیتی ہے،جس کی وجہ بہرطور کسی بھی صورت صنعتی انقلاب ،ماسوائے ایوب دور،نہیں رہابلکہ تب پاکستان امریکی جنگوں کا ہراول دستہ رہا ،جس کے باعث یہاں ڈالرز کی ریل پیل رہی اور معیشت کے اشارئیے بہتر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ ان مالیاتی اداروں کا مقصد دنیا بھر میں مالی معاملات کو شفاف طریقے سے چلانا ہے ، کرپشن کا قلع قمع کرنا اور ترقی پذیر ممالک کو نہ صرف مالی وسائل مہیا کرنا بلکہ ان کے استعمال سے اپنی معیشت کو درست خطوط پر استوار کرنا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ان مالیاتی اداروں کے پروگرامز سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنی معیشت کو ٹھیک کرکے،بہتر انداز سے آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں ،حتی کہ بھارت نے بھی آئی ایم ایف کے پروگرام سے استفادہ کیا ہے لیکن بھارتی سیاسی قیادت نے اس پروگرام پر کماحقہ نہ صرف عمل کیا بلکہ اپنے ماہرین کی مدد سے اسے مزید بہتر بنایالیکن اس کا مقصد قطعا یہ نہیں کہ وہاں کرپشن کا بازار بند ہو گیا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کی صنعت بہتر انداز سے چل رہی ہے اور ان زرمبادلہ کے ذخائر قابل رشک ہیں۔صرف بھارت ہی کیا،اسی خطے میں بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی صنعت کو ترقی دی ہے اور ان کے زرمبادلہ کے ذخائر اور فی کس آمدنی اس وقت پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔
آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری یا قرض دینے سے قبل اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ اس کی واپسی کا عمل کس طرح ممکن ہو گا؟اس لئے وہ تمام تر اکابرین و ذمہ داران کیساتھ رابطے میں رہتے ہیں تا کہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں ان کا سرمایہ محفوظ رہے،یہی وجہ تھی کہ رجیم چینج آپریشن کے بعد آئی ایم ایف نے نئے قرضہ سے قبل عمران خان سے معاملات طے کئے تھے،جس میں شنید ہے کہ شفاف انتخابات کی شرط پر عمران خان نے آمادگی ظاہر کی تھی۔آج انتخابات ہو چکے ہیں،البتہ ان کی شفافیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ساری دنیا کے سامنے ہے کہ عمران خان کو پابند سلاسل رکھ کر،اس کی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان چھین کر،اس کے حمایت یافتہ امیدواران کو دوسری سیاسی جماعت میں دھکیل کر،اس کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھ کر (تادم تحریر کوئی فیصلہ نہیں ہوا)،فارم 45فارم47کا قضیہ چھیڑ کر اور انتخابی عذرداریوں میں مسلم لیگ ن کے امیدوارن کو کامیاب قرار دلوا کر،عمران خان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے،ایسے میں اگر عمران خان آئی ایم ایف سے گزشتہ یقین دہانیوں کا اعادہ کرتا ہے،تو کیا وہ حقائق کے منافی ہے یا ملک سے غداری کے مترادف ہے؟افسوس تو اس امر پر ہے کہ عمران خان سے قبل سیاسی قیادتیں،اس امر سے کلی طور پر بے بہرہ دکھائی دیتی ہیں اور اندھا دھندآئی ایم ایف کی شرائط پر قرض حاصل کرتی رہیں،کہ انہیں کب اسے واپس کرنا ہے؟واپس تو پاکستانی عوام کرے گی،جسے اس ملک میں رہنا ہے اور جس کی آزادی گروی رکھ کر یہ قرض صرف اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے ،لئے جا رہے ہیں لیکن اس صورتحال میں جب آئی ایم ایف کی یقین دہانی کی یاددہانی عمران خان کروانے جا رہا ہے تو وہ ملک سے غداری کر رہا ہے؟ریاست پاکستان اپنی خودمختاری و سالمیت تو اس وقت عالمی مالیاتی اداروں کو سونپ چکی تھی جب حالیہ انتخابات کی یقین دہانی کے عوض آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا،آج اس قرض کی باقی ماندہ رقم کی قسط وصولی کے لئے ،اسی انتخاب کی شفافیت کی یقین دہانی سے متعلق خط میں ذکر کرنا خودمختاری و سالمیت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button