CM RizwanColumn

بیجا خطوط اور پاکستانی مفاد

سی ایم رضوان
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ایک طرف آئی ایم ایف کو یہ خط لکھے جانے کی دھول اڑ رہی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اگلا پیکیج دینے سے قبل اس حکومت کی انتخابی حیثیت کا تعین کرلے تو دوسری طرف یہ بھی شنید ہے کہ امریکی ایوان کانگریس کے 31اراکین نے امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے نام لکھے گئے ایک خط میں زور دیا ہے کہ وہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات ہونے تک پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مبینہ طور پر امریکی ایوان نمائندگان کے 31ڈیموکریٹک ارکان کے دستخطوں کے ساتھ اس خط کی قیادت گریگ کیسر اور سوسن وائلڈ نے کی جبکہ دستخط کرنے والوں میں پرمیلا جے پال، راشدہ طلیب، روکھنہ، جیمی راسکن، الہان عمر، کوری بش اور باربرا لی جیسے ارکان بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ انہی الزامات کے بعد امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات پر زور دیا تھا۔ البتہ بدھ کو لکھے گئے اس تازہ خط میں امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن اور بلنکن پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے سے گریز کریں جب تک کہ انتخابی مداخلت کی مکمل، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات نہیں کر لی جاتیں۔ خط میں مبینہ طور پر امریکی قیادت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی حکام پر سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لئے دبائو ڈالے اور پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کو ایسے معاملات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے اور ان کی رہائی کی وکالت کرنے کا کام سونپے جبکہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے یہ پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ کسی ملک کے کہنے پر مبینہ دھاندلی کی تحقیق نہیں ہوگی۔ اس امر کے باوجود کہ خط میں جو بائیڈن اور بلنکن پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستانی حکام پر واضح کریں کہ اگر متعلقہ اقدامات نہ کیے گئے تو واشنگٹن پاکستان کے ساتھ فوجی اور دیگر تعاون روک سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں تو ایسا کوئی خط وجود ہی نہیں رکھتا اور اگر یہ جسارت امریکہ کے ان تیرہ اراکین کانگریس نے کی ہے تو نئی آنے والی حکومت کو سب سے پہلے اسے ملکی معاملات میں بے جا مداخلت قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ اس حکومت کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے رہنما نواز شریف جیسے جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ ان حالات میں چند اراکینِ امریکی کانگریس کا یہ مبہم خط کیا حیثیت رکھتا ہے جن کو یہ علم ہی نہیں کہ جس پارٹی کے الزامات کی بنیاد پر وہ پاکستان سے تعلقات تک ختم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں وہ پارٹی ہمیشہ سے ہی جھوٹے الزامات لگانے کی سیاست کرتی آئی ہی یہ امریکہ کو بھی سابقہ رجیم چینج جیسے اقدامات میں ملوث قرار دے کر اب امریکی حمایت ڈھونڈ رہی ہے۔ اس خط کو لگتے ہاتھ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنے کے حوالے سے صرف یہی امر اہم ہے کہ نئی قومی اسمبلی کس حد تک موثر ادارے کے طور پر سامنے آئے گی اور کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والے ارکان اسے حقیقی معنوں میں ایسا فورم بنا سکیں گے جہاں عوامی مسائل پر بات ہو اور ان کے حل کے لئے جو بھی مناسب تجویز سامنے آئے اسے منظور کیا جائے اور فیصلے کرتے ہوئے یہ نہ دیکھا جائے کہ کون سے فیصلے سے امریکی آقائوں کو خوشی ہو گی یا ان کی کسی بھی قسم کی ناراضگی کا خطرہ ہے بلکہ صرف اس پہلو کو ہی پیش نظر رکھا جائے گا کہ کیا اس اقدام سے پاکستان اور اس کے عوام کو وسیع تر بنیادوں پر فائدہ ہو گا یا نہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد ابھی تک عوامی اور سیاسی جذبات قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہے۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی محمود خان اچکزئی جیسے سینئر سیاستدان کی جانب سے بھی ایسے سیاسی جذبات کا مظاہرہ کیا گیا جن کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بہرحال اس لایعنی انقلابی تقریر کا محمود خان اچکزئی کو فائدہ یہ ہوا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے حکم پر محمود خان اچکزئی کو سنی اتحاد کونسل کی جانب سے صدارت کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے اور اس حوالے سے کسی باہمی نظریاتی وابستگی یا کسی سابقہ سیاسی اتحاد یا شراکت داری کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا بلکہ صرف وہ واحد تقریر ہے جو محمود اچکزئی نے سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کے موقع پر کی تھی۔ یہاں تک کہ اس اجلاس میں تحریک انصاف کے بعض لیڈر بچگانہ طور پر بانی پی ٹی آئی کے چہرے والے ماسک پہن کر یوں شامل ہوئے جیسے اسمبلی اجلاس نہ ہوا کمبھ کا میلا لگا ہوا ہے اور پھر یہ بھی کہ عدالتوں سے بانی پی ٹی آئی کے مجرم اور چور ثابت ہو جانے کے بعد بھی اپنے مخالفین کے خلاف مسلسل ’’ چور چور‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ طریقہ حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے تک تو قابل فہم ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں ناکامی اور دھاندلی کی شکایات کی وجہ سے تحریک انصاف کو پریشانی لاحق ہے لیکن اگر حکومت سازی کے بعد بھی قومی اسمبلی میں روزانہ یہی عمل دہرایا گیا تو پی ٹی آئی کو اس خاتون سے زیادہ کوئی اہمیت نہ دی جانی چاہئے جو اکثر خود ہی اپنے کپڑے پھاڑ کر تھانے پہنچ جاتی ہے کہ میری عزت پر حملہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے ابھی تک ان مخصوص نشستوں کا بھی محفوظ فیصلہ نہیں سنایا جس میں تحریک انصاف نے اپنے آزاد ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا رکن بنوانے کے بعد اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں میں حصہ دیئے جانے کی درخواست کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے یہ سیٹیں ابھی تک کسی پارٹی کے نام نہیں کی ہیں اور نہ ہی سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے ذریعے مخصوص سیٹوں کا کوٹہ لینے کے حوالے سے سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی رکن قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہوا اور نہ ہی اس پارٹی نے مخصوص نشستوں کے لئے اپنے نامزد امیدواروں کے نام مقررہ وقت میں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے ہیں۔ اصولی طور سے الیکشن کمیشن یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے سے انکار کر سکتا ہے کیونکہ سنی اتحاد کونسل ایک پارلیمانی جماعت نہیں ہے۔ البتہ اس سے دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے اندھا دھند الزامات لگائے جانے کے موجودہ ماحول کو مزید وسعت اور تلخی ضرور ملے گی۔ اس سے قطع نظر کہ اگر الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے نام سے تحریک انصاف کو یہ سیٹیں دینے کا فیصلہ کیا تو سیاسی لحاظ سے تو اسے درست فیصلہ کہا جائے گا لیکن اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھتے رہیں گے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے بھی یہی صورت حال رہی ہے اور نہ صرف پی ٹی آئی کے حامی سیاسی حلقے بلکہ میڈیا اینکرز کی اکثریت بھی اسے پی ٹی آئی کی مظلومیت اور نادیدہ قوتوں کی من مانی قرار دے رہی ہے۔ حالانکہ اس معاملے میں بھی قانونی لحاظ سے الیکشن کمیشن کی پوزیشن مضبوط تھی اور اس نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا تھا اور سپریم کورٹ کو بھی اس فیصلہ کو قانونی اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق ہی تسلیم کرنا پڑا تھا کیونکہ تحریک انصاف اس بات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکی تھی کہ اس کے انٹرا پارٹی الیکشن منعقد ہوئے تھے اور پارٹی سیکرٹری کی طرف سے اس بارے میں جعلی حلف نامہ جمع نہیں کرایا گیا تھا۔ البتہ اس فیصلہ کے سیاسی مضمرات کا خمیازہ تحریک انصاف ہی نہیں ملکی سیاست کو بھی عام طور سے بھگتنا پڑ رہا ہے اور پوری انتخابی مہم کے دوران یہی نعرہ عام کیا جاتا رہا کہ تحریک انصاف سے ناجائز طور پر انتخابی نشان واپس لے کر اسے انتخابات میں مساوی موقع دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
ستم یہ کہ تحریک انصاف مسلسل یہ ماننے سے انکار کر رہی ہے کہ اس کا قانونی مقدمہ کمزور اور سیاسی فیصلی بے وقت اور غلط تھے، جن کے نتیجے میں اسے انتخابی نشان سے محروم ہونا پڑا۔ البتہ انتخابی نشان کے بغیر بھی تحریک انصاف کے آزاد ارکان متفرق انتخابی نشانوں پر قومی اسمبلی کی 90سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان نتائج پر بھی پاکستان تحریک انصاف نے اطمینان کا اظہار کر کے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کا اصولی اور شریفانہ فیصلہ کرنے کی بجائے اس عوامی طاقت کو بھی حسب سابق ہنگامہ آرائی اور احتجاجی سیاست کے لئے ہی استعمال کیا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ اپنے بیرون ملک آقاں اور امریکی اراکینِ کانگریس کو بھی مبینہ طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پہلے دن سے اب تک تحریک انصاف اپنی تمام صلاحیتیں محض خود کو درست اور دوسروں کو غلط قرار دینے پر ہی صرف کر رہی ہے۔ اس جماعت کی جانب سے ملک میں اقتدار کے لئے سیاسی رابطوں کے حوالے سے بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت نے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ بات چیت سے انکار کر دیا البتہ سنی اتحاد کونسل جیسی گمنام جماعت کے ساتھ الحاق ضروری سمجھا۔ اب ان کا یہی فیصلہ مخصوص نشستوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سبب بن گیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف اگر آزاد ارکان کا گروپ بنا کر یا انہیں اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے مخصوص نشستیں طلب کرتی تو شاید الیکشن کمیشن اس سے انکار نہ کر سکتا کیونکہ تحریک انصاف بطور پارٹی بہر حال موجود ہے اور الیکشن کمیشن میں رجسٹر بھی ہے لیکن اس آسان راستہ کی بجائے اس پارٹی نے یہی مناسب سمجھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کر اپنی پارلیمانی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ کس حد تک پارٹی کے لئے سود مند ہوا یہ موجودہ حالات ہی بتا رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم مکمل نہ ہونے کے سوال پر تنازع کھڑا کر کے گزشتہ دنوں صدر عارف علوی نے آخری وقت تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے اپنے آئینی فرض سے انکار کیا اور اس پر بھی پختہ نہ رہ سکے اور آخری رات یہ اجلاس اس بناء پر طلب کر لیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے سنگین انضباطی کارروائی کی وارننگ جاری کی گئی تھی یوں گزشتہ روز جب وزارت پارلیمانی امور نے صبح دس بجے اجلاس بلا لیا تو پتہ چلا کہ چند گھنٹے پہلے صدر نے بھی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کر دیئے تھے۔ ظاہر ہے کہ صدر علوی نے یہ اقدام خوشی سے نہیں کیا تھا بلکہ انہیں یہ خوف لاحق ہو گا کہ اگر انہوں نے اجلاس بلانے سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کی تو شاید انہیں بعد از وقت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے۔ ان حالات میں ان امریکی اراکینِ کانگریس کی سوچ اور اطلاعات پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو اپنے صدر کو ایک آزاد اور دوست ملک کے معاملات میں مداخلت کا خط لکھ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو یہ خط ایک خیالی خط ہے اور اگر نہیں تو بیجا ہے جس طرح کہ آئی ایم ایف کو لکھا گیا ایک دوسرا خط ہے۔ نئی شہباز حکومت کو چاہئے کہ وہ ان بیجا خطوط کو سب سے پہلے بے اثر کرے پھر ہی کوئی دوسرا کام موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے ورنہ یہ خطوط اور ان کے اثرات ملک و قوم کے لئے نقصانات کا باعث ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button