ColumnM Riaz Advocate

صدر مملکت کے انتخاب کا طریقہ کار

محمد ریاض ایڈووکیٹ
آئین پاکستان کے آرٹیکل 41کے مطابق پاکستان کا ایک صدر جو ریاست کا سربراہ ہوگا اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمائندگی کرے گا۔ صدارتی اُمیدوار کی کم از کم عمر45سال اور مسلمان ہونا لازم ہے اور ایسا شخص جو قومی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل بھی ہو یعنی آرٹیکل 62اور 63کے معیار پر پورا اُترتا ہو۔ آئین کے دوسرے شیڈول میں صدارتی انتخاب کا مفصل انداز میں طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ حلقہ انتخاب یعنی الیکٹورل کالج کی بات کی جائے تو قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ممبران صدر مملکت کا انتخاب کرتے ہیں۔ صدارتی عہدہ کی مدت میعاد پانچ سال ہے۔ تاہم صدر، اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود، اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا جب تک کہ اس کا جانشین اس کے عہدے پر نہ آجائے۔ یاد رہے صدارتی عہدہ کی میعاد ختم ہونے سے 60دن پہلے اور میعاد ختم ہونے سے 30دن پہلے انتخاب نہیں کیا جاسکتا۔ بشرطیکہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے مذکورہ مدت کے اندر الیکشن نہ ہوسکے تو یہ اسمبلی کے عام انتخابات کے تیس دنوں کے اندر کرائے جائیں گے۔ جیسا کہ صدر عارف علوی کی پانچ سالہ مدت میعاد 9ستمبر 2023کو ختم ہوچکی تھی مگر بوجہ قومی اسمبلی تحلیل صدارتی انتخاب کا انعقاد ناممکن تھا یہی وجہ ہے کہ صدر عارف علوی نئے صدر کے انتخاب تک عہدہ براجمان ہیں۔ استعفیٰ، مواخذہ یا وفات کی صورت میں عہدہ خالی ہوجائے تو خالی اسامی کو پُر کرنے کے لئے انتخاب اس عہدہ کے خالی ہونے کے تیس دن کے اندر منعقد کیا جائے گا۔ عہدہ سنبھالنے سے پہلے، صدر چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے آئین میں درج تیسرے شیڈول میں درج حلف کے مطابق حلف اُٹھاتا ہے۔ آئین کے تابع، صدر کے عہدے پر فائز شخص اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب ہونے کا اہل ہوگا، لیکن کوئی شخص اس عہدے پر لگاتار دو میعادوں سے زیادہ نہیں رہ سکے گا۔ صدر قومی اسمبلی کے سپیکر کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے سکتا ہے۔
انتخاب کا طریقہ کار:
صدر کے انتخابات کی بابت آئین کا دوسرا شیڈول واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ جسکے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان صدر کے عہدے کے لیے انتخابات کا انعقاد کرے گا اورچیف الیکشن کمشنر ایسے انتخابات کے لیے ریٹرننگ آفیسر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پارلیمنٹ کے اراکین کے اجلاس اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے اجلاسوں کی صدارت کے لیے پریذائیڈنگ افسران کا تقرر کرے گا۔ آنے والے صدارتی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر پبلک نوٹیفکیشن کے ذریعے کاغذات نامزدگی جمع کرانے، جانچ پڑتال، دستبرداری اگر کوئی ہو، اور اگر ضروری ہو تو پولنگ کے لیے وقت اور جگہ کا تعین کرے گا۔ نامزدگی کے لیے پارلیمنٹ یا کسی صوبائی اسمبلی کا کوئی بھی رکن صدارتی عہدہ کے لیے کسی ایسے شخص کو نامزد کر سکتا ہے جو صدر کے طور پر انتخاب کے لیے اہل ہو۔ رکن پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی تجویز کنندہ کے دستخط اور امیدوار برائے صدر کے دستخط شدہ کاغذات نامزدگی پریذائیڈنگ افسرکو جمع کرائے گا۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد پریذائیڈنگ افسر شارٹ لسٹ امیدواران کے نام الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گا۔ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی تاریخ کے موقع پر اگر امیدواروں میں سے ایک کے علاوہ باقی سب دستبردار ہو جاتے ہیں، تو اس اُمیدوار کی جیت کا اعلان چیف الیکشن کمشنر کر دے گا۔ یاد رہے آئین کے آرٹیکل 226کے تحت صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری یعنی بیلٹ پیپرز کے تحت کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے ہر ممبر کو ایک بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے جس میں اپنے پسندیدہ اُمیدوار کے نام سامنے نشان لگا کر ووٹ کاسٹ کرے گا۔
ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار:
صدر کے انتخاب کا الیکٹورل کالج 692ووٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ قومی اسمبلی کے 336ووٹ، سینیٹ کے 96ووٹ اور ہر صوبائی اسمبلی کے 65فی کس ووٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں بات کی جائے تو پارلیمنٹ کے ہر ممبر کی جانب سے ڈالا گیا ہر ووٹ ایک ووٹ تصور کیا جاتا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے 371ممبران کے ووٹوں کو 65ووٹ، سندھ اسمبلی کے 168ووٹوں کو 65ووٹ، خیبرپختونخوا اسمبلی کے 145ووٹوں کو 65ووٹ اور اسی طرح بلوچستان اسمبلی کے 65ووٹوں کو 65ووٹ تصور کیا جاتا ہے۔ اس فارمولا کے مطابق ہر صدارتی اُمیدوار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ملنے والے ہر ووٹ کو تو گنتی میں لیا جاتا ہے مگر ہر صوبائی اسمبلی سے لئے گئے ووٹ کو 65ووٹس کے حساب سے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اگر پنجاب اسمبلی میں ایک اُمیدوار نے 371ووٹوں میں 200ووٹ لئے ہوں اور دوسرے اُمیدوار نے 171ووٹ حاصل کئے ہوں تو پنجاب اسمبلی میں پہلے امیدوار کے حاصل کردہ ووٹ 35جبکہ دوسرے امیدوار کے 30 ووٹ تصور ہونگے۔ لہذا لیکٹورل کالج میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ دو یا دو سے زائد اُمیدواروں کے درمیان حاصل کردہ ووٹوں کی گنتی برابر ہونے کی صورت میں کامیاب امیدوار کا اعلان قرعہ اندازی کے ذریعہ کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button