Column

ایران گیس پائپ لائن معاہدہ

ضیا الحق سرحدی
پاکستان میں گیس کی شدید قلت کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کم و بیش ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہوا تھا لیکن اب خبر آئی ہے کہ پاکستان نے 15سال بعد ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے اہم فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک 81کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن کی تعمیر پر 45ارب روپے لاگت آئے گی۔ منصوبے کے لیے فنڈز گیس انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ سے فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 750ایم ایم سی ایف ڈی گیس پاکستان کو فراہم کی جائے گی۔ منصوبے کے تحت 1931کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس میں 1150کلو میٹر ایران اور 781کلو میٹر پاکستان کے اندر ہوگی۔ منصوبے کے تحت پاکستان کو جنوری 2015میں گیس کی سپلائی ہونی تھی، تاہم اب تک منصوبہ مکمل نہ کیا جاسکا۔ منصوبے کے تحت ایران پہلے ہی 900کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر دونوں ممالک کے ملکی مفاد کا یہ اہم منصوبہ تاخیر کا شکار کیوں ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب کئی عوامل میں مضمر ہے۔ اس منصوبے کی طویل کہانی 1994میں شروع ہوئی جب پاکستان کو گیس کے ذخائر میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گیس کی درآمد ضروری سمجھی گئی۔ ایران نے پاکستان کے ساتھ 1995میں ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بعد ازاں ایران نے پاکستان سے بھارت تک پائپ لائن کو توسیع دینے کی تجویز دی اور فروری 1999 میں بھارت کے ساتھ ایک ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے گئے، اس منصوبے کو ایران، پاکستان، انڈیا ( آئی پی آئی) گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا اور بہت سے ماہرین نے اسے امن اور خوشحالی گیس پائپ لائن قرار دیا۔ پاکستان، بھارت اور ایران نے کئی ملاقاتیں کیں اور قیمتوں اور دیگر متعلقہ امور پر اتفاق کیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب ملک میں گیس کی شدید قلت ہے اور دوسری جانب سستی اور فوری گیس کی فراہمی سے فرار حاصل کیا جارہا ہے، وہ بھی ایک پڑوسی اور دوست ملک سے ۔ حکومت کی جانب سے معاملہ امریکی پابندیوں کے سر ڈالنا بھی محل نظر ہے، کیونکہ ابھی چند ماہ قبل ایران سے بجلی کی خریداری کا معاہدہ ہوا اور بجلی کی ترسیل شروع بھی ہو چکی ہے ، کیا اس وقت امریکی پابندیاں نہیں تھیں؟ دوسری جانب ان تمام پابندیوں کے باوجود بھارت نہ صرف ایران سے گیس حاصل کر رہا ہے بلکہ اس نے ایران سے سستا پٹرول خرید کر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی معیشت کھڑی کر لی ہے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ کیا یہ پابندیاں بھارت کے لئے نہیں ہیں؟ اسی طرح تو پاکستان چین اور روس سے بھی بہت کچھ حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ چین اور روس سے کاروبار کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں لگا رہا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل امریکی دبا پرسی پیک اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے پیچھے ہٹنے کی نوبت نہیں آئے گی ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ صرف ایک تجارتی معاہدہ نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے اعتماد اور اعتبار کا معاملہ بھی ہے۔ امریکی دبا پر ہم اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ ایک عرصہ سے کیا گیا معاہدہ پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کل چین اور روس سمیت کوئی بھی ملک اعتماد نہیں کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل کریں، اپنے اقتدار اعلیٰ کو گر وی نہ رکھیں ، ورنہ ہمارے دوستوں میں سے کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا اور معاشی بحالی کے تمام منصوبے دھرے رہ جائیں گے ۔ قومی اداروں کو چاہئے کہ اس عاقبت نا اندیشانہ فیصلے کو واپس لیں ، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کو مکمل کریں سرمایہ کاری کے منصوبوں میں اسے بھی شامل کریں ۔ ایران اور پاکستان دونوں برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں جبکہ ہماری شناخت ہمارا مسلک نہیں اسلام ہے اور ہمیں اسلام کی حقیقی روح دنیا کو دکھانا ہو گی۔ پاکستان اور ایران اس خطے کی اہم قوتیں ہیں، دونوں ملک بہت سے شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، خصوصاً ایران کے پاس توانائی وافر مقدار میں ہے جبکہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، پاکستان ایران سے گیس اور تیل لے کر توانائی کی قلت پر قابو پا سکتا ہے تاکہ پاکستان کو توانائی کے جس بدترین بحران کا سامنا ہے اس سے نکل سکے۔ ایران برادر ہمسایہ ملک، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے پاکستان کا انتہائی اہم دوست ہے ، دونوں ممالک کے مابین کئی جہتیں یکساں ہیں، باہمی سطح پر مزید بہتر مستقبل اور عوامی خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور 1965ء کو پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے طیاروں کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے ہوائی اڈے پاکستان کی تحویل میں دے دئیے تھے۔ دوسری طرف افغانستان دنیا بھر میں واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنائے جانے کی مخالفت کی تھی اور افغانستان اکثر اوقات اب بھی پاکستان کے خلاف نہایت زہریلے بیانات دیتا رہتا ہے۔ ایران پاکستان دو برادر ملک ہونے کے باوجود ان کے مابین تجارتی حجم محض50کروڑ ڈالر ہے جو کہ بہت کم ہے ۔ دوطرفہ بنکاری کے قیام سے تجارتی حجم 2ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اب جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن تعمیر کے معاملے میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے، پاکستان اپنے علاقے میں 80کلومیٹر پائپ لائن بچھائے گا۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ تاخیر کے شکار گیس لائن منصوبے کو 2مرحلوں میں عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران نے پہلے ہی پاکستان کو 180دن کی ڈیڈ لائن میں ستمبر2024ء تک توسیع کر دی ہے۔ ابتدائی طور پر گوادر میں گیس استعمال کی جائے گی۔ پاکستان میں توانائی کا بحران تیزی سے بگڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔ گیس کی کمی کے باعث ایل این جی کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ ملک کی معیشت میں توانائی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے لیکن پاکستان اپنے قدرتی گیس کے ذخائر سے ملکی ضروریات پوری نہیں کر سکتا ۔ گیس بحران کی وجہ سے صنعتیں مطلوبہ پیداوار حاصل کرنے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف گھریلو صارفین بھی گیس کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تمام قسم کے عالمی دبا کو مسترد کرتے ہوئے ملکی مفادات مقدم رکھے اور ایران سمیت دیگر ممالک کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تمام منصوبوں کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچائے تا کہ گھریلو صارفین کے ساتھ صنعتوں کو متواتر گیس مہیا ہو اور صنعتیں اپنے غیر ملکی آرڈر بر وقت مکمل کر کے ملکی زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بنیں۔ پچھلے دنوں پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنی کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ چاہ بہار بندرگاہ گوادر پورٹ کو نقصان پہنچائے گی۔ جبکہ پاکستان نے ان خدشات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہ بہار گوادر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں حلیف اور مددگار ثابت ہوں گی۔ یہی بات چینی سفیر نے بھی کہی کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یاد رہے کہ گوادر پورٹ کا ٹھیکہ اور وہاں ہر طرح کا ترقیاتی کام کی ذمہ داری چین کی ہے۔ گوادر پورٹ کو اگر چاہ بہار سے نقصان پہنچا تو سب سے پہلے ایران آواز اٹھاتا۔ پاکستان میں ایسی قوتیں ہیں جن کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان ایران میں دشمنی ہو جائے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود مقام شکر ہے کہ پاکستانی آرمی کہہ چکی ہے کہ ایران ہمارا اسلامی برادر ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ دوستی پر کسی بھی طرح ’’ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button