Column

معذور افراد کا بھی کچھ سوچئے

رفیع صحرائی
الیکشن 2024انعقاد پذیر ہو گئے۔ آئندہ چند روز میں قومی اور صوبائی حکومتیں بھی بن جائیں گی۔ ہمارے ہاں کی تینوں سیاسی پارٹیوں نے سبز باغوں سے بھی آگے بڑھ کر بہشتِ بریں کے نظاروں پر مشتمل خواب دکھائے مگر ہمارے معاشرے کے سب محروم طبقے یعنی معذور افراد کے لئے کسی پارٹی نے بھی خاطر خواہ پالیسی نہیں دی۔
’’ جس تن لاگے سو تن جاگے اور نہ جانے کوئی‘‘
یہ حقیقت ہے کہ تکلیف اور دکھ درد اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہمدرد اور دوست رشتہ دار ہماری تکلیف پر ہمدردی اور دکھ کا اظہار تو کر رہے ہوتے ہیں مگر جس کرب سے ہم گزر رہے ہوتے ہیں اس تکلیف کا صرف ہمیں ہی پتا ہوتا ہے، دوسرا کوئی اس کرب سے گزر سکتا ہے نہ اندازہ کر سکتا ہے۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جنرل نشستوں سے ہٹ کر خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح مقامی حکومتوں کے ادارے میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی، میٹرو پولیٹن کارپوریشن، ٹائون کمیٹی اور یونین کونسل میں بھی خواتین، لیبرز اور کسانوں کی سیٹیں ہوتی ہیں مگر کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ ہماری کل آبادی کا 15فی صد طبقہ جو معذور افراد پر مشتمل ہے کسی انتخابی ادارے میں حقِ نمائندگی سے یکسر محروم ہے۔ دیکھا جائے تو معذور افراد ہمارے ملک میں سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا طبقہ ہے جن کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی۔ اگر قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں میں معذوروں کو متناسب نمائندگی دی جائے تو ان افراد کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ قومی اسمبلی کی 336نشستوں میں معذوروں کا حصہ 51بنتا ہے۔ مگر آج تک اسمبلی میں کوئی ایک معذور شخص نہیں پہنچا۔ یہی حال صوبائی اسمبلیوں میں اور لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں ہے۔ معذور شخص چاہے امیر کبیر بھی ہو گا وہ معذوری کے کرب سے خود گزرنے کی وجہ سے دیگر معذوروں کا احساس ضرور کرے گا۔ اس لئے کوئی ایسا قانون ضرور بننا چاہئے کہ ہر انتخابی ادارے میں معذور افراد کی موثر نمائندگی موجود ہو تاکہ یہ پسا ہوا طبقہ اپنی آواز اور مطالبات اعلیٰ ایوانوں میں پہنچا کر معذور افراد کے لئے قانون سازی کرا سکے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 3دسمبر معذوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد معذور افراد کے وقار، عزتِ نفس، ان کے حقوق اور ضروریات کو سمجھنا، معاشرے میں باعزت مقام دلانا، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی کے ہر پہلو میں معذور افراد کی رسائی اور انضمام کو یقینی بنانا، معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
ہمارے ملک میں 15فیصد یعنی تین کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ اور ہمارے رویّوں کی وجہ سے ان تین کروڑ لوگوں کا مستقبل انتہائی تاریک اور اذیت ناک ہے۔ معذور افراد کو 1980 Uکی دہائی میں سپیشل افراد کا ٹائٹل دیا گیا تھا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم انہیں سپیشل پرسنز نہیں سمجھتے بلکہ انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر لطف لیتے ہیں، انہیں مضحکہ خیز ناموں سے پکارتے ہیں۔ ان پر پتھر پھینکتی ہیں، ان پر طنزیہ آوازیں کسی جاتی ہیں یہاں تک کہ انہیں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، ان کے ساتھ انتہائی تعصب، بیگانگی اور لاپروائی کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ انہیں کوئی حقوق نہیں دیئے جاتے اور اگر وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں تو انہیں ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے پیٹا جاتا ہے۔
بعض نام نہاد این جی اوز جو انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، 3دسمبر کو خصوصی تقاریب کا انعقاد کرتی ہیں، کسی معذور فرد کو پکڑ کر صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سپیشل افراد سے اظہارِ ہمدردی اور اظہارِ یک جہتی کیا جاتا ہے، فوٹو سیشنز ہوتے ہیں اور پھر ان تصاویر کو سال بھر کیش کرایا جاتاہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو ملین یعنی اسی کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں جو دنیا کی کل آبادی آٹھ ارب کا دس فیصد ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اسی سے نوے فیصد خصوصی افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح پچاس سے ستر فیصد ہے۔
پاکستان میں خصوصی افراد بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ ملکِ عزیز میں معذوری سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے جس کے سبب اداروں کی انتظامیہ اور کارکنان خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ اعلیٰ تعلیم اور مہارت کے باوجود صرف جسمانی معذوری کی وجہ سے انہیں ملازمت کے لئے نااہل سمجھا جاتا ہے یا انہیں قلیل تنخواہ کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے لحاظ سے اپنے اداروں میں ان خصوصی افراد کے لئے ملازمتوں کی گنجائش نکالنی چاہئے۔ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کے عالمی کنونشن پر بھی دستخط کئے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے ریاست خصوصی افراد کی بحالی کی ذمہ دار ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ معذور افراد کے معاملے میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی ہے۔ حکومتی کار پرداز معذوروں کی زندگی سنوارنے اور ان کے حقوق دینے کے وعدے اور دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان وعدوں کے ایفا ہونے کی نوبت کبھی نہیں آتی، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق گئے دنوں کی معصوم لغزشوں کی طرح وہ اپنے وعدے بھی بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کا 3 فیصد کوٹہ بھی مخصوص کیا گیا ہے، کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ 15فیصد معذوروں کے لئے صرف 3فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ کوٹہ صرف زبانی جمع خرچ ہی رہ گیا ہے۔ معذور افراد اپنے حق سے محروم ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ معذور افراد کا سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا کوٹہ بڑھا کر کم از کم 10فیصد کرے تاکہ اس محروم طبقے کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ازالہ ہو سکے۔
ہمارے ملک میں معذور افراد کی تعلیم و تربیت کے معیاری اور خاطر خواہ تعداد میں ادارے موجود نہیں ہیں۔ تحصیل یا ضلعی سطح پر نام نہاد ادارے قائم ہیں جو صرف خانہ پُری کا کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ معذور افراد تو ہر شہر ، قصبے اور گائوں میں موجود ہیں۔ لیکن حکومت نے معذور افراد کو معاشرے کا بوجھ سمجھتے ہوے بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔ یہ بہت ظالمانہ اقدام ہے، ہر صوبائی حکومت کو چاہئے کہ اگر دیہات میں ممکن نہیں تو ہر قصبے اور شہر میں خصوصی افراد کے لئے نہ صرف تعلیمی ادارے قائم کرے بلکہ ان کے لئے ووکیشنل ادارے بھی قائم کرے جہاں ان کی معذوری کے حساب سے خصوصی افراد کو ہنرمند بنایا جائے تاکہ وہ معاشرے کے باوقار اور باعزت شہری بن کر نہ صرف اپنا روزگار کما سکیں بلکہ معاشرے پر بوجھ بھی نہ بنیں۔
حکومت کو چاہئے کہ سرکاری طور پر معذور افراد کی نشاندہی کے لئے ایک سروے کرائے، ان افراد کی معذوری کے حساب سے انہیں مختلف کیٹاگریز میں تقسیم کیا جائے، معذور افراد کے لئے وظائف مقرر کئے جائیں، ان کے لئے وہیل چیئرز، سفید چھڑی، بیساکھیاں اور مصنوعی اعضاء کا بندوبست کیا جائے۔ مسافر بسوں، ریلویز اور ہوائی جہازوں میں ان کے لئے سفری سہولیات مہیا کی جائیں، انہیں مخصوص نشستیں مہیا کی جائیں اور کرایوں میں انہیں رعایت دی جائے۔ ہمارے ہاں قانون کی کتابوں میں معذوروں کو جو برائے نام حقوق دیئے گئے انہیں بھی عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا لہٰذا زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
خصوصی افراد کا سب سے اہم مسئلہ ان کی ذہنی و جسمانی بحالی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ہے، ان کی تعلیمی ضروریات احسن طریقے سے پوری کی جانی چاہئیں۔ مناسب روزگار ان کا حق ہے انہیں اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں، آپ ہم میں سے ہیں اور ہم آپ لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی اور فلاحی اداروں کو بھی ان کی بحالی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں بھی یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خصوصی افراد کو طنز اور نفرت کا نشانہ بنا کر انہیں احساس کمتری کا شکار نہ بنائیں، معذوری کا احساس دلا کر انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج نہ بنائیں، ان سے پیار کریں، ان کی دلجوئی کریں کہ اپنی مرضی سے وہ معذور نہیں ہوئے۔
جب تک معذور افراد ہماری اسمبلیوں اور لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں بطور نمائندہ موجود نہیں ہوں گے درج بالا تجاویز پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button