سپیشل رپورٹ

ایرانی ڈرون سوڈان پہنچنے پر مغربی طاقیں کیوں خوفزدہ ہو گئیں؟

سینئر  مغربی حکام کے مطابق بحیرۂ احمر تک رسائی کی خواہشمند پراکسیز کی بھڑکائی ہوئی تباہ کن خانہ جنگی میں حصہ لیتے ہوئے ایران نے سوڈان کی فوج کو جنگی ڈرون فراہم کیے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے اور وسیع خطے کے غیر مستحکم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔

فوج جس نے نیم فوجی گروپ کے ہاتھوں بہت سا علاقہ کھو دیا ہے، اس کی حمایت میں نو ماہ کے تنازعہ میں ایران کی مداخلت سے شمالی افریقی ملک کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں جو پہلے ہی قحط کے دہانے پر ہے۔

یہ سوڈان کی 400 میل طویل بحیرۂ احمر کی ساحلی پٹی کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے جہاں چین، روس اور ترکی جیسے ممالک رسائی کے لیے کوشاں ہیں۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ہارن آف افریقہ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ایلن بوسویل نے کہا، "ایران کی سوڈانی فوج کو ڈرون اور دیگر مادی مدد کی فراہمی "سفارتی برادری میں بڑے پیمانے پر قبول کی جاتی ہے۔ سوڈان میں ایک اتحادی کو بالخصوص بحیرۂ احمر کے ساتھ دوبارہ حاصل کرنا ایران کے لیے ایک بڑی جیت ہوگی لیکن یہ دیگر علاقائی اور مغربی طاقتوں کو خوفزدہ کر دے گی۔”

تین مغربی عہدیداروں نے حساس معلومات کے افشا کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ سوڈان کو قدس ایئر انڈسٹریز کی جانب سے ایران میں تیار کردہ واحد انجن والے بغیر پائلٹ طیارے مہاجر-6 کی کھیپ موصول ہوئی ہے جس میں درست طریقے سے گائیڈڈ گولہ بارود موجود ہے۔ سیٹلائٹ کی تصاویر کا جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں نے ملک میں ڈرون کی موجودگی کی تصدیق کی۔

امریکی حکام کے مطابق مہاجر-6 فضا سے زمین پر حملوں، الیکٹرانک جنگ اور میدانِ جنگ میں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ سوڈان میں ان کا کیا اثر ہوگا۔

سوڈان کو مسلح کرنے سے وسیع تر شرقِ اوسط میں تہران کی فوجی طاقت کو تقویت ملے گی – جہاں وہ غزہ میں حماس سے لے کر لبنان کی حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں تک کی حمایت کرتا ہے – اور اس کے بڑھتے ہوئے ڈرون پروگرام کو بھی۔ امریکہ کہتا ہے کہ ایران پہلے ہی عراق میں حزب اللہ، حماس، کتائب حزب اللہ، حوثیوں اور ایتھوپیا کی فوج کو ہتھیار فراہم کر چکا ہے۔

یمن میں حوثیوں سے لڑنے والے عرب اتحاد میں سوڈان کے کردار سے منسلک سات سال کے وقفے کے بعد تہران اور سوڈانی فوج نے 2023 میں سفارتی تعلقات دوبارہ کھولے۔

امریکہ نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کو مہاجر-6 ڈرون فراہم کر رہا ہے۔ واشنگٹن نے گذشتہ سال ایران سے متعلق پابندیوں میں توسیع کرتے ہوئے تہران کے "ڈرونز کے جاری، دانستہ پھیلاؤ’’ کا حوالہ دیا تھا جو “روس، شرقِ اوسط میں ایران کی پراکسیز اور عدم استحکام کا باعث بننے والے دیگر عناصر” کو جنگ کے قابل بناتے ہیں۔

ایران کہتا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس کی دفاعی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس نے بارہا روس کو ڈرون بھیجنے کی تردید کی اور کہا ہے کہ یوکرین نے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ تہران نے حوثیوں کو مسلح کرنے کی تردید بھی کی اور کہا کہ یہ گروپ اتنا مضبوط ہے کہ اکیلے کام کر سکے۔ 17 جنوری کو وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا اگر دوسرے ممالک ایرانی ڈرون کی نقل کرتے ہیں تو یہ ایران کی ذمہ داری نہیں ہے۔

پرامن معاشروں کے فروغ کے لیے کوشاں ایک ڈچ تنظیم پی اے ایکس میں انسانی بنیادوں پر تخفیفِ اسلحہ کے پروجیکٹ لیڈر وم زوائننبرگ کے مطابق سوڈان میں مہاجر-6 کی موجودگی ثابت کرنے والے شواہد میں ڈرون کی ایک سیٹلائٹ تصویر ہے جو 9 جنوری کو دارالحکومت خرطوم کے شمال میں واقع وادی سیدنا ایئر بیس پر موجود ہے۔

ڈرون ماہر زوائننبرگ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پروں کا 10 میٹر پھیلاؤ اور 7.5 میٹر کی لمبائی صرف مہاجر-6 سے ملتی ہے۔ انہوں نے فضائی پٹی پر ایک ٹرک کے اندر واقع کنٹرول سینٹر کے ایک ریڈیو اینٹینا کی بھی ایک عام منظر کے طور پر نشاندہی کی جہاں سے ڈرون چلایا جاتا ہے اور کہا کہ آر ایس ایف کے جنگجوؤں کے جنوری میں مار گرائے گئے ایک چھوٹے طیارے کے ملبے کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی فوٹیج میں ڈرون کی دم کا پر واضح نظر آتا تھا۔

انہوں نے تیگرے کے علاقے میں علاقائی حکومت کے خلاف جنگ میں ایتھوپیا کے مہاجر-6 ڈرونز کے استعمال کو دستاویزی شکل دی۔ ایک اوپن سورس انٹیلی جنس تجزیہ کار جیکب جانوسکی نے بھی تصدیق کی کہ ڈرون کی خصوصیات مہاجر-6 سے ملتی تھیں۔

سوڈانی فوج کے ترجمان نے تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی ایران کی وزارتِ خارجہ یا اقوام متحدہ کے مشن نے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button