انسانی فلاح کا دائمی چارٹر
امتیاز احمد شاد
اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار سٹیون اوبرائن نے کہا تھا کہ ’’ ہم تاریخ کی اہم نہج پر کھڑے ہیں۔ ہر آنے والا سال انسانوں کے لئے مشکلات لا رہا ہے۔ میں انکشاف کر رہا ہوں کہ ہم اقوام متحدہ کی تشکیل سے اب تک ہر سال بدترین بحران کا سامنا کر رہے ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یقینا کوئی بنیادی کمی ہے۔ پوری دنیا کو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اپنی تجاویز دینا ہوں گی تاکہ ہم کوئی ایسا دائمی چارٹر تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں جو انسانیت کو عظمت و رفعت عطا کر سکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھیں، لوگوں کی مشترکہ اور ہم آہنگ کوشش کے بغیر کثیر تعداد میں انسان مر جائیں گے۔ بچے لاغر اور سکولوں سے لاتعلق ہوں گے۔ لوگوں کے ذریعہِ معاش اور مستقبل تباہ ہو جائیں گے۔ معاشرے میں امید ختم ہو جائے گی اور ترقیاتی کاموں سے ملنے والے فوائد تباہ ہو جائیں گے۔ بہت سے لوگوں کو ہجرت کرنا پڑے گی اور مختلف خطوں میں اور زیادہ عدم استحکام پھیل جائے گا۔ یقینا سٹیون اوبرائن انسانیت کی فلاح کے لئے اقوام عالم کو اپنا کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ آج سے تقریبا پندرہ سو سال پہلے فلاح انسانی کے سب سے بڑے علمبردار حضرت محمدؐ پر اللہ تعالیٰ نے جو کتاب نازل فرمائی اس سے بڑھ کر انسانی فلاح کا کوئی چارٹر نہیں ہو سکتا۔ یقینا قرآن مجید انسانی فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق اللہ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔ گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفا کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہِ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور ہم قرآن ( کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔ ( سورۃ بنی اسرائیل)
اللہ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ( محمدؐ کو) پیغمبر ( بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور انہیں پاک کرتے اور ( اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور ا س سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔ ( سورۃ الجمعہ) دوسرے مقام پر یوں فرمایا! وہ اللہ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے ( محمدؐ) پر نازل فرمایا، تاکہ وہ سب لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا ہو جائے۔ اسی اللہ ( یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے، آسمانوں اور زمین کی، اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں شریک ہے۔ اس ( اللہ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اور مناسب اندازے پر رکھا۔ ( سورۃ الفرقان) اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا: ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم، اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ ( جو) کتاب محفوظ میں ( لکھا ہوا ہے)۔ اسے وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟ اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ ( اسے) جھٹلاتے ہو۔ ( سورۃ الواقعہ)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کر کے رب کے پسندیدہ بندے بنا کر اس کے اصلی مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہراہ مستقیم پر گامزن کرانا ہے۔ تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے، جو اس کی شامتِ اعمال کی بناء اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔ یہ قرآن مجید اتنی عظمتوں اور رفعتوں کا حامل ہے کہ اگر ایمان کے جذبے کے ساتھ محض اس کی تلاوت کر لی جائے تو وہ بھی مومن کے لئے انتہائی اجر و ثواب کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ کے آخری محبوب پیغمبرؐ کا ارشاد گرامی ہے: جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا، اسے نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے۔ اَلَم ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور م ایک حرف ہے ( ترمذی)۔ گویا ان حرفوں کی تلاوت کے بدلے پڑھنے والے کو تیس نیکیاں ملیں گی اور پورے قرآن مجید میں تین لاکھ بائیس ہزار چھ سو ستر حرف ہیں، تو پورے قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب بتیس لاکھ چھبیس ہزار سات سو نیکیاں ملیں گی۔ اندازہ کیجئے کہ محض تلاوت کرنے پر اس قدر اجر و ثواب ہے تو پھر سمجھ کر سیکھنے اور اس کے علوم کے حصول اور عمل پر کیا اجر و ثواب ہو گا؟۔ اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ ہم اپنے ناقص حساب کتاب سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے سے اللہ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور ان شاء اللہ اس کی برکت سے جنت کے حصول اور جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جو اگر حاصل ہوگئی تو یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ یاد رکھیے! دنیا کی مختصر زندگی بہر صورت گزر ہی جائے گی، لیکن اگر یہ زندگی رب کی رضا کے مطابق گزری تو دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی ہے، وگرنہ من چاہی، شتر بے مہار کی زندگی یا اللہ کی بغاوت و نافرمانی، قرآن کی تکفیر و تکذیب میں گزری تو ایسی زندگی دنیاوی لحاظ سے شاید کامیاب ہوجائے، لیکن ابدی زندگی جہنم کی نذر ہو کر خسران کا باعث ثابت ہو گی۔ قرآن مجید سے تعلق استوار اور مضبوط سے مضبوط تر رکھنا مومن کا شعار ہے۔ یہ نازل ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم اپنا تزکیہ کر لیں اور اپنے مربی و آقا، پالنہار اللہ رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور یہ قرآن معمولی چیز نہیں کہ ہم اسے محض ایک کتاب سمجھیں بلکہ اس میں ہمارے لئے دنیا و آخرت کی کامرانیوں کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔ اس کے علاوہ قرآن دلوں کے زنگ دور کرکے صاف شفا ف بناتا ہے۔ سرور کائناتؐ کا ارشاد عالی ہے: دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگ جانے سے زنگ لگ جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسولؐ اللہ، پھر انہیں کس طرح صاف کیا جائے؟ آپؐ نے فرمایا، موت کو زیادہ یاد کیا کرو اور قرآن مجید کو بہت پڑھا کرو۔ ( بہیقی) اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا! جو اپنے رب سے بات چیت کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ قرآن مجید پڑھے۔ ( کنزالعمال) ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا! قرآن پڑھا کرو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفیع بن کر آئے گا۔ ( صحیح مسلم) ایک جگہ اس طرح قرآن کی عظمت بیان فرمائی! میری امت کی بہترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ رسول اکرم امام الانبیاؐء کا ارشاد عالی شان ہے: قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور ( جنت کے) اونچے اونچے درجات پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، جیسا کہ دنیا میں پڑھتے تھے، تمہارا جنت میں آخری درجہ وہ ہو گا، جہاں تم پڑھتے پڑھتے ٹھہر جائو گے ( ترمذی)
قرآن مجید میں چھ ہزار دو سو بتیس آیات ہیں تو قرآن مجید پڑھنے والے کو اسی قدر درجات حاصل ہوں گے ہر دو درجوں کے درمیان زمین اور آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ ( ترمذی)۔ قرآن مجید سراسر خیر و برکت اور فوز و فلاح اور کامیابیوں و کامرانیوں کا نشان امتیاز ہے۔ اس پر ایمان لانا اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکام یعنی اوامر و نواہی پر کماحقہ عمل پیرا ہونا اور صاحب قرآن، پیغمبر آخرالزماںؐ کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن و حدیث کی اتباع و فرماں برداری کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور نجات کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید کا بنیادی موضوع اور مخاطب ہی انسان ہے تاہم فلاح انسانی کے لئے خالق کائنات کی جانب سے اس سے بڑھ کر کوئی چارٹر نہیں ہو سکتا۔