Columnمحمد مبشر انوار

ہم آہنگی

محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستانی سیاسی افق پر ایک طرف انتخابی مہم کا غلغلہ ہے تو دوسری طرف نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ کم و بیش پوری ریاستی مشینری ایک سیاسی جماعت کے خلاف فریق بنی دکھائی دیتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو ہر صورت انتخابی عمل سے باہر کرنا ہی درحقیقت ریاست پاکستان کی سب سے بڑی خدمت ہے، اسی میں ریاست پاکستان کی بقا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں ایسا پہلی بار نظر آ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، اپنی آئینی ذمہ داری سے بڑھ کر نہ صرف ایک عدالت بن رہا ہے بلکہ ایک فریق کی حیثیت میں سامنے آ رہا ہے، یہاں یہ امر بر محل ہے کہ بدقسمتی سے ملکی ادارے، اپنے دائرہ کار اور حدود میں کمی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس خلاء کے باعث کوئی بھی دوسرا محکمہ/ادارہ از خود ایسے اختیارات استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کا وہ مجاز نہیں۔ یہ تمام آراء قانونی ماہرین کی ہے کہ جن کے بقول آئین اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا اور یوں ایک کھچڑی سی پکی ہوئی ہے، کوئی بھی کل سیدھی دکھائی نہیں دیتی، دکھائی دیتا ہے تو بس اتنا کہ ایک سیاسی شخصیت کو ہر صورت اقتدار دلوانا ہے اور اس کے لئے تمام قوانین کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جو حال ہی میں ’’ اصل حکمرانوں‘‘ سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکے ہیں، نو مئی کے واقعات کی مذمت کر چکے ہیں، بابائے قوم اور شہدا کے مزار پر پروٹوکول کے ساتھ حاضری دے چکے ہیں، بتانے لگے کہ جب حکمرانوں نے ملکی صورتحال پر رائے مانگی تو بے لاگ عرض کی کہ اس کا مداوا شفاف الیکشن ہیں۔ مکالمے میں یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ شفاف انتخاب کی صورت میں کون کامیاب ہو سکتا ہے، جس کا واضح جواب حکمرانوں کو بھی تھا لیکن اسے تسلیم کرنے کے لئے وہ قطعی تیار نہ تھے لہذا اس کو دوٹوک انداز میں رد کر دیا گیا۔ وہ واضح طور پر یہ کہنا چاہتے تھے کہ حکمران کسی بھی صورت تحریک انصاف کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس کے پس پردہ محرکات ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح ذاتی معاملات کو ترجیح دیتے ہوئے، پاکستانی عوام کے حق کو سلب کیا جا رہا ہے، کیسے پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے لیکن جو ٹھان لی گئی ہے، اس سے ایک قدم پیچھے ہٹنا گوارا نہیں ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئینی تشریح کے لئے عدالتوں پر بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے اور ضروری و غیر ضروری، معمولی و غیر معمولی نکات پر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہیں اور عدالتوں کو بہرطور ان نکات کی تشریح کرنا پڑ رہی ہے۔ یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ عدالتیں حسب سابق ’’ نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت بروئے کار آتی نظر آ رہی ہیں کہ کل تک جن نکات کی تشریح پرانے کر چکے ہیں، آج حالات کے زیر اثر، دوبارہ انہی نکات کی تشریح برعکس ہوتی نظر آتی ہے۔ موجودہ تشریح میں بھی عدالتیں بہرحال اس کا جواز فراہم کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن بادی النظر میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ عدالتیں بہرکیف موجودہ حالات کے دبائو میں نظر آتی ہیں وگرنہ آزاد عدالتوں کی حیثیت میں کئے گئے ماضی کے فیصلوں پر دوبارہ عدالتی کارروائی اور اس کے نتیجہ میں برعکس فیصلے ممکن نہیں تاوقتیکہ کوئی ایسا نقطہ جو مقدمہ کے پورے حقائق کو ہی بدل دے۔ اصولوں پر کئے گئے فیصلوں کو اتنی آسانی اور اتنی جلدی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا بشرطیکہ فیصلے کرنے والے ذاتی پسند و نا پسند اور حالات کے جبر سے آزاد ہوں وگرنہ یہی ہوتا ہے کہ آج کئے گئے فیصلے کل پھر تبدیل ہو جائیں گے اور قانون موم کی ناک بن کر رہ جاتا ہے۔ درحقیقت پاکستان میں قانون بڑے اور طاقتور لوگوں کے لئے موم کی ناک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا وگرنہ ہماری عدالتوں میں آئینی و قانونی ماہرین کے بلاشک و شبہ بڑے اور معتبر نام موجود ہیں، جو نہ صرف قانون بلکہ اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آئینی جمہوریت میں وہ برطانوی جمہوریت کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جہاں پارلیمنٹ سپریم ہے، جبکہ آئینی جمہوریت میں پیروی کرنے کے لئے امریکی ماڈل زیادہ موزوں دکھائی دیتا ہے۔ امریکی جمہوری ماڈل یا کسی بھی آئینی جمہوریت میں آئین کو سپریم تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں معاملہ ہمیشہ سے برعکس رہا ہے کہ یہاں ہنوز سپریم اور اختیارات کی تقسیم کا فیصلہ ہی نہیں ہو پایا اور ہر دور حکومت میں ، ’’ نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت آئین کی تشریح بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی صورتحال اس وقت بھی پاکستان میں دکھائی دے رہی ہے کہ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے ایک سیاسی جماعت کے امیدواران کے ساتھ جو امتیازی سلوک رکھا جا رہا ہے، اس سے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ ’’ اصل حکمرانوں ‘‘ کا مطمع نظر کیا ہے اور وہ مستقبل قریب میں کس کو حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں، بالخصوص جب ایک جماعت عوام میں تو مسلسل عزت افزائی کروا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ عوام کو گالیاں دیتے ہوئے یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ’’ ساڈی گل ہو گئی اے‘‘، منصوبہ تو عیاں ہے لیکن کیا پورا ہو جائے گا؟ تحریک انصاف کے امیدواران اور ان کے وکلاء بھی بہرطور ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی طور میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتے خواہ انہیں ایک انتخابی نشان نہ ملے لیکن یہاں مشکل یہ ہو گی کہ اگر ایک نشان تلے انتخاب نہیں لڑتے تو کیا بعد ازاں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی تحریک انصاف کے ساتھ رہ سکیں گے یا انہیں تحریک انصاف کے ساتھ رہنے دیا جائے گا کہ نظریاتی سیاست پاکستان میں عنقا ہو چکی ہے، اور منتخب ہونے کے بعد سیاسی راہیں جدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ بہرحال تاحال تحریک انصاف کے امیدواران اپنی بھرپور کوششوں میں ہے کہ ایک طرف انہیں ایک انتخابی نشان ملے، وہ تحریک انصاف کے پرچم تلے انتخاب میدان میں اتریں اور دوسری طرف آر اوز کی جانب سے نوے فیصد امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے بعد، اپیلوں میں جا چکے ہیں کہ ہر ممکنہ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اگر ان امیدواران کو اپیلوں میں ، ایک انتخابی نشان کے تحت، اپنی پارٹی کے پرچم تلے انتخاب لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے تو یقینا تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہو گی بصورت دیگر تحریک انصاف کے لئے اپنے حمایت یافتہ امیدوار کی بطور آزاد کامیابی کے بعد اسے اپنے ساتھ رکھنا، کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہو گا۔ علاوہ ازیں! مخصوص نشستوں کا حصول بھی انتہائی مشکل ہو جائے گا، دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اس پس منظر میں یہ تصور کرنا کہ مجوزہ انتخابات آزادانہ ہو جائیں گے، قرین قیاس ہی ہے، تصور کر لیں کہ تحریک انصاف ان تمام تر مشکلات کے باوجود انتخابی عمل کا حصہ بن جاتی ہے، اسے اپنے پرچم تلے، ایک انتخابی نشان پر انتخاب لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے اور منصوبہ کے برعکس تحریک انصاف حکومت بھی بنا لیتی ہے، تو کیا ہو گا؟ ذرا دیر کے لئے مستحکم جمہوریتوں پر نظر دوڑائیں اور موازنہ کرتے ہیں کہ یہ جمہوریتیں اس قدر مضبوط کیسے ہو گئی ہیں اور کیونکر یہاں ثمرات عوام تک جا رہے ہیں، کیوں عوام کا اعتماد اداروں پر ہے؟ ان جمہوریتوں میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے؟ آیا اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کیسے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ کیا ہے؟ اگر ان حقائق پر نظر دوڑائیں تو یہ واضح ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا کردار ہر ریاست میں موجود ہے لیکن یہ کردار اپنی پیشہ ورانہ مہارت تک محدود ہے، جمہوری حکومت کے تابع رہتے ہوئے اپنی تجاویز دینا، حکومت کو مضبوطی فراہم کرنا اور ریاستی مفادات کے تابع پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا ہی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، اس سی زیادہ کردار وہ ریاستی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، دوسری ریاستوں میں ادا کرتے ہیں۔ اب اس کا موازنہ ہم ریاست پاکستان سے کرتے ہیں، ہماری نظر میں سب ہی محب الوطن ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ذاتی انا و ضد کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور اس میں ہر حد سے گزر جانے پر بھی دریغ نہیں کرتے، جس سے کم از کم ریاست پاکستان کے مفادات کا نہ تحفظ ہوتا ہے اور نہ ہی خدمت۔ تمام تر سٹیک ہولڈرز سے دست بستہ گزارش ہی کر سکتے ہیں کہ اس انتخابی دنگل میں جو بھی حکمران بنے، مقتدرہ کا کوئی بھی نمائندہ ہو، خدارا ریاست پاکستان کی خاطر، باہمی گلے شکوے دور کر کے، کسی بھی طرح اداروں میں ’’ ہم آہنگی‘‘ پیدا کرکے ریاست پاکستان کو کامیابی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں، خواہ اس میں ہر فریق کو چند قدم پیچھے ہٹنا پڑے، مضائقہ نہیں، کہ اس کے بغیر ریاست پاکستان اقوام عالم میں اپنی حیثیت مسلسل کھوتی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button