جرم کہانی

’’بچے مرتے ہیں تو مریں، ہم چالان نہیں کریں گے‘‘ وکلا کے ہاتھوں پٹنے والے ٹریفک افسر کا بیان

 موٹر سائیکل چلانے پر ایک بچے کا چالان کرنے والے ٹریفک پولیس کے سیکشن افسر کو وکلا نے مبینہ طور پر نشانہ بنایا، جس پر رد عمل میں اہلکار نے کہا ’’بچے مرتے ہیں تو مریں، اب ہم چالان نہیں کریں گے۔‘‘

اس واقعے کے خلاف ڈی ایس پی ٹریفک شبیر کی جانب سے کراچی کے علاقے جمشید کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس بھی کی گئی، جس میں اہلکار کی پھٹی ہوئی یونیفارم بھی دکھائی گئی۔

مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والے اہلکار محمد یوسف کے مطابق وہ حسب معمول تین ہٹی پر ڈیوٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے، کہ اس دوران دو کم عمر بچے جو غلط سمت سے موٹر سائیکل پر آ رہے تھے، ان کو روکا گیا۔

محمد یوسف نے بتایا کہ ٹریفک پولیس قوانین کے مطابق ان کے والدین کو حلف نامے سمیت طلب کیا گیا تاکہ آئندہ بچوں کو اس وقت تک ایسی سواری نہ دی جائے جب تک وہ قانون کے مطابق اس عمر تک نہیں پہنچ جاتے، لیکن اس دوران بچوں کا ماموں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ وکیل ہے، بچوں کو زبردستی نہ صرف چھڑوا کر لے گیا بلکہ ایس اے کے خلاف عدالت کے ذریعے قانونی کارروائی بھی کروا دی۔

ایس او کا کہنا ہے کہ جب وہ عدالت پہنچے تو پہلے دو وکلا نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے بعد درجن سے زائد وکلا اس پر پل پڑے اور بار روم میں لے جا کر انھیں مارا پیٹا گیا،  یونیفام پھاڑ دی۔

ایس او محمد یوسف کے مطابق اگر بچوں کے چالان کاٹنے پر ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو ہم ڈی آئی جی اور بالا افسران کو کہہ دیں گے کہ چالان کرنے کی کیا ضرورت ہے، بچے مرتے ہیں تو مرنے دیں، اگر ہمیں ایک چالان کرنے پر ذلیل کیاجائے، مارا پیٹا جائے، تو ہم تو قانون پر عمل کروانے والے ہیں ہم تو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔

دوسری طرف ڈی ایس پی شبیر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایس او کو احاطہ عدالت میں مارا پیٹا گیا، ہم نے تو بچوں کو ہراساں نہیں کیا تھا نہ مارا پیٹا تھا، جب اے آر وائی نیوز نے ٹریفک کے اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے بھی یہ بات کہی گئی کہ اب بچوں کی ڈرائیونگ پر چالان نہیں ہوں گے، نہ ہی ماتحت عملے کے ساتھ ایسے رویوں کو برداشت کیا جائے گا، اور اس عمل کی ہر فورم پر بھرپور مذمت کی جائے گی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button