ColumnTajamul Hussain Hashmi

گزشتہ سال کے ارب پتی

تجمل حسین ہاشمی
ورلڈ اکنامک فارم کی گزشتہ سال 2022کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 10فیصد آبادی کی سالانہ آمدن دنیا کے 52فیصد غریب لوگوں کی آمدن سے زیادہ ہے۔ دنیا کے امیر لوگ دنیا کی مجموعی دولت کے 76فیصد پر قابض ہیں، ایک انٹرنیشنل ویب سائٹ کی 2020کی شائع رپورٹ کے مطابق دنیا کے 5کروڑ 61لاکھ امیر افراد کے پاس 4183کھرب ڈالر موجود تھے۔ گزشتہ روز بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق امیر ترین خاندانوں کی دولت 4337کھرب 50ارب ہے ۔ امریکا کے 8، فرانس کے 4، جرمنی کے 3، یو اے ای 1سودی عرب، بیلجیم، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی اور ہانگ کانگ کا ایک ایک خاندان فہرست میں شامل رہا۔ بلوم برگ کی فہرست میں دنیا کے 500ارب پتی افراد شامل ہیں۔ ان امیر افراد کی مجموعی دولت میں مسلسل اضافہ دیکھ جا رہا ہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق سنہ 2023میں امیر ترین ابوظہبی کا شاہی خاندان آل نیہان کی مجموعی دولت 305ارب ڈالرز کے ساتھ سب سے آگے رہا۔ پچھلے سالوں کے فیاض ترین دنیا کے 144ممالک میں پاکستان کا 91نمبر تھا۔ مسلم ممالک میں انڈونیشیا نے خیراتی کاموں میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق آئندہ برس 70سے زیادہ انتخابات آدھی دنیا میں ہونے جا رہے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق مغربی معیشت میں غیر یقینی صورتحال رہے گی۔ لیکن ہمارے ہاتھ دیکھ کر اور ستاروں کے علم سے مضبوط امیدوار بتا رہے ہیں، کئی ہستیاں سمندر کے قریب، کوئی پہاڑوں کے قریب، گلاس اور جادو ٹونے سے حکمران بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن دنیا کی ریسرچ کہہ رہی ہے کہ آئندہ پوری دنیا میں معاشی اور جنگی صورتحال میں اضافہ رہے گا۔ ہمارے ہاں کے دولت مند کیسے مال ڈبل کرتے ہیں اور کس طرح کے فلاحی کام کرتے ہیں۔ خود کو جدی پشتی دولت مند اور ذات پات کو فخر سمجھنے والے اور کئی صنعتوں کے مالکوں کا عوامی فلاح میں کیا کردار رہا۔ ان کی دولت ڈبل کیسے ہو رہی ہے، گلوبل فنانس میگزین اور دی ہیریٹیج فائونڈیشن کے مطابق دنیا کے 190ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام چل رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مارکیٹ طلب اور رسد پر چلتی ہے، مارکیٹ میں حکومتوں کا عمل دخل انتہائی کم پایا جاتا ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ری ویو 2023کے مطابق دنیا کے تین ممالک سنگاپور، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں فری معیشت ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 51.7فیصد فری معیشت پائی جاتی ہے، ورلڈ پاپولیشن ری ویو کی درجہ بندی کے مطابق ساٹھ فیصد سے کم والی معیشت کو معاشی فریڈم نہیں کہ سکتے، پاکستان میں بھی مکسڈ معیشت ہے، پاکستان کے دولت مندوں اور سیاستدانوں کی دولت میں کئی گنا اضافہ کی باعث موجودہ نظام اور فلاحی کام ہیں، پاکستان کے مکسڈ نظام میں دولت مند طبقہ کے طاقتور ہونے سے مارکیٹ کی قیمتوں پر اثر اندازی سے کئی گنا منافع کما لینا ہے۔ سرکاری کمزوریوں کو آسانی سے کیش کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں جب بھی سیاسی حالات میں کشیدگی پائی گئی، سرمایہ دار نے ذخیرہ اندوزی، گروپ بندی کے ذریعے مارکیٹ پر اثر انداز ہو کر غریب اور ریاست کو لوٹ لیا، ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی وصول کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ناجائز دولت کو منی لانڈرنگ کرتے ہیں، کئی مقدمات قائم ہوئے لیکن آج ان مقدمات کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کسی ایک سیاسی پارٹی کی حکومت کو الزام دینا مناسب نہیں۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے چینی کی امپورٹ ایکسپورٹ کے طریقہ کار کو دیکھیں۔ کیسے ٹیکس کے پیسے کو سبسڈی کے لیے استعمال کر لوٹا جاتا رہا۔ دولت مند افراد کے لیے دولت کو ڈبل کرنے کا سب سے آسان طریقہ فلاحی پراجیکٹ ہیں۔ دولت مند افراد ٹیکسز میں ریلیف کے لیے فلاحی ادارے قائم کرتے ہیں اور حکومتوں سے ٹیکس ربیٹ حاصل کر کے اپنے اپنے پیسے کو ڈبل کرتے ہیں، مثلا یہ فلاحی کاموں پر 1روپیہ خرچ کر کے حکومت کو 100روپے کا خرچہ ظاہر کر کے ٹیکسز معاف کرواتے ہیں۔ عالمگیر ٹرسٹ کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ شکیل دہلوی کا کہنا تھا عام آدمی کا گزارا بہت مشکل ہو گیا ہے، گزشتہ سالوں میں ہمیں سالانہ 6سے 7کروڑ زکوٰۃ وصول ہوتی تھی، اس وقت ہمارے ملکی کی آبادی 25کروڑ سے زیادہ ہے، سالانہ 60سے 70کروڑ فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ معاشی صورتحال کے باعث عام افراد مشکل میں ہے۔ زکوٰۃ اسلامی معاشرتی، اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کرتی ہے ۔ ہمارے ہاں امیروں نے فلاحی ہسپتال تو بنائے لیکن پیسے کے بغیر غریب کا علاج ممکن نہیں۔ دولت مند سرکاری راشی افسران کے ساتھ ملکر ریاست کو نقصان دے رہے ہیں۔ امریکا کا راکا فیلر جب کوئی یونیورسٹی بناتا ہے تو کبھی بھی بورڈ کا رکن نہیں بنتا۔ ہمارے ہاں دولت مند ہی بورڈ کا رکن ہے۔ سیلاب ، زلزلوں اور کرونا میں دولت مندوں کی حقیقت عیاں ہو چکی ہے۔ پاکستان کے دولت مندوں کی طرف سے کوئی ایسا فلاحی کام نہیں جس میں غریب بچوں کے لیے کوئی سکالر شپ ہو۔ سرکاری منصوبوں کو اپنے ناموں سے پبلک کر رہے ہیں۔ سرکاری منصوبے عوام کے ٹیکسز کا پیسہ ہے۔ دولت مندوں کے فلاحی دسترخوان قوم نہیں اپنے مال کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ ان کے گوشواروں کی دولت اور ظاہری اثاثوں میں زمین آسمانوں کا فرق موجود ہے۔ بڑے بڑے لیڈروں کے پاس گوشواروں میں اپنی گاڑی تک نہیں لیکن ان کا پروٹوکول چیک کرو۔ ان کی فیملی کا پروٹوکول چیک کرو۔ پاکستان کے حوالے سے ٹرانسپنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 36فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ بد عنوانی کو روکنے میں انسداد بد عنوانی کے اداروں کا کردار غیر موثر سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاشی کمزوری کی بنیادی وجوہات عدل و انصاف اور بیوروکریسی کا طاقتور کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، قائد اعظمؒ نے اداروں کو سیاست سے دور رہنے اور آئین پاکستان سے وفا داری پر قائم رہنے کی تلقین کی لیکن آج تک ان ارشادات پر عمل قابل عمل نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button