Column

جمہوری روایات کو پروان چڑھائیں

یاور عباس
دنیا بھر میں بادشاہت کا نظام تقریباً ختم ہوگیا ہے ، دنیا جمہوریت پسند ہوچکی ہے اور جمہوریت کی بناء پر مغرب نے بے پناہ ترقی کر لی اور خود کو مہذب قوموں کی صف میں کھڑا کر لیا ہے ، مگر جہاں جہاں بادشاہت کا نظام رائج ہے وہاں اب بھی لوگ غلامی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ترقی پذیر ملکوں میں جہاں جمہوریت تو ہے مگر برائے نام ، جہاں کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت قائم ہوجائے وہاں معاشرے ترقی نہیں کرتے بلکہ لوگ غلامی اور آزادی کی درمیانی لائن پر کھڑے ہوتے ہیں کبھی وہ خود کو آزاد سمجھتے ہیں اور کبھی غلام ، پاکستان بھی اسی طرح کے ممالک کی صف میں کھڑا ہے جہاں آزادی کے 76سالوں میں نصف عرصہ آمریت کا دور رہا اور باقی ادوار میں لنگڑی لولی جمہوریت ، جمہوری حکومتوں کو چلنا نہیں دیا گیا یا پھر وہ واقعی نااہل تھیں اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی مگر پاکستان کے موجودہ سسٹم کی بات کریں تو اگرچہ یہاں جمہوری نظام حکومت ہے اور پارلیمانی سسٹم کے تحت ملک چلایا جارہا ہے مگر پارلیمان کے ساتھ ہر دور میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے ، ہر وزیراعظم روتا ہوا پارلیمنٹ سے نکلتا ہے کوئی پوچھتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا گیا ، کسی کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے اور کوئی امریکی سازش کا الزام لگاتا ہے مگر یہاں شاید ہی کسی وزیر اعظم کو انصاف ملا ہو، بے شمار سربراہان مملکت کو قتل کر دیا گیا، پہلے وزیر اعظم خاں لیاقت علی خاں کے قتل سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا ، جنرل ( ر) ضیاء الحق طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہوگئے ، محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلسہ عام میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ، نوازشریف کو عدالتی نااہلی کا سامنا کرنا پڑا، یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے سزا سنا کر وزیراعظم کے عہدہ سے ہٹا دیا، عمران خاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی، حکومت کسی بھی پارٹی کی ہوئی ہر دور میں سول بالادستی کی کوششیں ہوتی رہیں اور متعدد بار جمہوری حکومتیں قربان بھی ہوتی رہیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی اور بالخصوص چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نعرہ لگایا تھا کہ’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ اور پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد خوب عوامی ہمدردیاں حاصل کیں ، سندھ ، بلوچستان اور وفاق میں حکومتیں قائم کیں ، یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل ( ر) پرویز مشرف کو وردی اتارنے اور استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا ، امریکی اڈوں کا خاتمہ کیا ، پیپلز پارٹی کے پاس اپنے کارنامے گنوانے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہوگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کیا کردار ادا کیا ؟ اداروں کو کتنا طاقتور بنایا ؟ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا جو منشور دیا تھا اس پر کس حد تک عملدرآمد ہوا؟ میثاق جمہوریت کے تحت پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ نے بھی پیپلز پارٹی کے بعد پانچ سال حکومت کی یوں دونوں بڑی جماعتوں کو 10سال حکومت کرنے کا موقع ملا جس میں اپوزیشن کا کردار بھی انہوںنے خود ہی ادا کیا مگر سوال پھر بھی یہی ہے کہ دونوں جماعتوں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کیا کردار ادا کیا ؟ شفاف ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے تاکہ کوئی بھی دھاندلی کا الزام نہ لگا سکے، دس سال حکومتیں کرنے کے بعد بھی دونوں بڑی پارٹیوں نے 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا، پیپلز پارٹی اسے آر او الیکشن کا نام دیتی رہی اور وزیراعظم عمران خاں کو سلیکٹڈ کا طعنہ دیتی رہی ، مسلم لیگ ن بھی براہ راست فوج پر الزام لگاتی رہی کہ لاڈلے کو لانے کے لیے آرٹی ایس سسٹم بٹھایا گیا ، کاش دونوں پارٹیوںنے مل کر کوئی ایسا نظام انتخابات تشکیل دیا ہوتا جس سے دھاندلی کے امکانات نہ ہوتے تو پھر نہ کسی کا لاڈلہ حکمران بنتا اور نہ ہی آر او الیکشن کی گردان گرداننی پڑتی، عمران خاں کے خلاف عدم اعتماد کر کے اقتدار سنبھالنے پر پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے اتحاد کو مخالفین نے غیر فطری قرار دیتے ہوئے اسے خفیہ ہاتھوں کی کارستانی قرار دیا گیا ، پی ڈی ایم حکومت نے دن رات دھڑا دھڑ قانون سازیاں کیں مگر وہ ساری اپنے کیسز کے خاتمہ کے لیے تھیں شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کی بجائے الیکشن کمیشن کو مزید اختیارات دینے ، نگران حکومتوں کو مضبوط بنانے ، پنجاب اور کے پی کے میں بروقت انتخابات کا انعقاد نہ کروا کے خود جمہوریت کا مذاق اُڑایا ہے ۔
8فروری 2024ء کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں جس کی شفافیت پر پہلے سے ہی انگلیاں اُٹھنا شروع ہوگئیں ہیں ۔ انتخابات کے ریٹرننگ آفیسر ز کے لیے عدلیہ کی بجائے سول بیوروکریسی، کاغذات نامزدگی اور جانچ پڑتال پر پی ٹی آئی کے امیدواروں اور ان کے تجویزو تائید کنندگان کی پکڑ دھکڑ کے ذریعے کاغذات نامزدگی کے عمل سے روکنا ، بڑے پیمانے پر ایک ہی پارٹی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنا جیسے اقدامات کے بعد عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنا یقینا مشکل مرحلہ ہوگا اور ایسے انتخابات پر جس پر عوام اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد نہ رہا ان انتخابات کی افادیت کیا رہ جائے گی ، ایسے انتخابات سے جمہوریت کتنی مستحکم ہوگی ، منتخب حکومت ملک کے معاشی ، سیاسی بحرانوں پر قابو پانے میں کس قدر کامیاب ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گی لیکن اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کے عمل کے آزادانہ ، منصفانہ کروانے میں ناکام ہوتی ہیں او ر محض اقتدار کی لالچ میں لاڈلہ بننی کی چکر میں ہی رہیں گی تو پھر ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی ، اسمبلیوں میں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں پہنچ سکیں گے ۔ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ ذاتی مفادات کی بجائے جمہوری روایت کو مضبوط کرتے ہوئے ملک میں ایسے شفاف ، منصفانہ ، غیر جانبدارانہ الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنوائیں تاکہ پاکستانی عوام اور کوئی سیاسی جماعت دھاندلی کا الزام نہ لگا سکے کیونکہ ہمارا مستقبل جمہوری روایات کو پروان چڑھانے سے ہی روشن ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button