اسرائیلی دہشت گردی: فلسطینی شہدا کی تعداد 18ہزار سے متجاوز

پوری دُنیا اسرائیل سے جنگ بندی کے مطالبات کررہی ہے، لیکن ڈھیٹ اور ناجائز ریاست اسرائیل اس پر چنداں بھی کان نہیں دھر رہی بلکہ پہلے سے اور زیادہ شدّت سے حملہ آور ہے، فلسطینی مسلمانوں سے حقِ زیست چھین رہی ہے، فلسطین میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، 18ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ پورا کا پورا انفرا سٹرکچر تباہ کیا جا چکا ہے، لگ بھگ تمام ہی عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں، ان ملبوں تلی نہ جانے کتنے فلسطینی مسلمان زندہ ہیں اور کتنے زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے، کوئی شمار نہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، بے سرو سامانی کے عالم میں، اُن کے آس پاس آتش و بارود برس رہے ہیں، اسرائیل نے جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گرد کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اس عالمی دہشت گرد کو کوئی لگام ڈالنے والا نہیں کہ اسے دُنیا کے چند بڑے اور مہذب کہلائے جانے والے ممالک کی بھرپور سرپرستی اور حمایت حاصل ہے، جن کی شہ پر یہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ یہ مہذب ممالک اسے درست اور راہ راست پر گردانتے جب کہ بے گناہ فلسطینی مسلمانوں میں اُنہیں کیڑے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے اُن کی نظر میں اسرائیل مظلوم ہے جبکہ فلسطین ( جس کے 18ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوچکے) ظالم ہے، پھر تو وہ 8ہزار کے قریب بچے بھی ظالم ہوئے جو ’’ معصوم’’ اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں۔ تاریخ ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، ان کا شمار بھی ظالموں، سفّاکوں، درندوں میں ہوگا۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے مظلوم فلسطینی اسرائیلی ظلم و ستم کو برداشت کر رہے ہیں۔ کیا کیا مظالم ان پر نہیں ڈھائے گئے۔ ان کے کتنے ہی پیاروں کو شہید کیا گیا، گرفتار کیا گیا، لاپتا کیا گیا، فلسطین میں آبادی کا تناسب تبدیل کرتے ہوئے یہودیوں کو لابسایا گیا اور فلسطینیوں کو چُن چُن کر مارا جاتا رہا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اوّل کے تقدس کی بارہا اسرائیلی فوج کی جانب سے پامالی کی گئی۔ معصوم بچوں تک کو نہ بخشا گیا۔ اُن کا کیا قصور تھا۔ اُن کو کیوں زیست سے محروم کرنے کی روش اختیار کی گئی۔ آخر کب تک برداشت کیا جاتا ظلم و ستم، ظلم کی انتہائیں کردی گئیں۔ اس پر آواز تو اُٹھنا تھی۔ اس کے خلاف عَلَم بغاوت کا بُلند ہونا لازمی تھا۔ ظلم جب حد پار کرجاتا ہے تو اُس کے خلاف حق سینہ سُپر ہوجاتا ہے اور اُس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی یہ بنیاد ہوتی ہے۔ گزشتہ مہینوں حماس نے اسرائیل پر 5ہزار راکٹ فائر کرکے اسرائیل کا شیرازہ بکھیرنے کی جانب پہلا قدم بڑھایا۔ ناجائز صہیونی ریاست تلملاگئی۔ اُس نے چند روز پلٹ کر بھرپور وار کیے۔ جنگی اصولوں کی دھجیاں اُڑا ڈالیں۔ معصوم بچوں کو بخشا نہ خواتین کو، 18ہزار شہداء میں ان کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اسپتالوں پر حملے کیے گئے اور اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا، امدادی مراکز تک پر حملے ہوئے، اقوام متحدہ سمیت تمام
تنظیمیں جنگ بندی کے مطالبات کرتی نہیں تھک رہیں، اکثر ممالک جنگ بندی پر اصرار کررہے ہیں، مجال ہے دہشت گرد ریاست اسرائیل کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ محض ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کی گئی، جس کے نتیجے پھر سے اسرائیل کے اندر کا شیطان جاگ گیا اور وہ تب سے غل مچارہا ہے۔گزشتہ روز بھی غزہ پر صہیونی حملے جاری رہے اور ایک ہی دن میں مزید 300فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا، جس کے بعد اسرائیلی دہشت گردی سے شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 18ہزار سے تجاوز کر گئی۔ 7اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے جبکہ حملوں میں 50ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے خان یونس سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کے منصوبے کے تحت علاقہ خالی کرنے کی دھمکی دی ہے اور اسرائیلی ٹینک جنوبی غزہ کی پٹی میں زمینی کارروائی کرتے ہوئے خان یونس کے وسط تک پہنچ گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 23لاکھ سے زائد فلسطینی پہلے ہی بے گھر اور جنگ زدہ شہر میں کئی مرتبہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ دوسری جانب القسام بریگیڈز کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوئوں نے الزیتون محلے میں ایک عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں اسرائیلی فوجی چھپے ہوئے تھے۔ اس حملے میں متعدد اسرائیلی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ حماس کے ساتھ تازہ جھڑپ میں بھی 5فوجی مارے گئے، جن میں سابق آرمی چیف اور موجودہ اسرائیلی وزیر کا بھتیجا بھی شامل ہے جبکہ 2روز قبل ان کا فوجی بیٹا بھی مارا جا چکا ہے۔ حماس نی کہا کہ اسرائیل جب تک اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات نہیں کرے گا، اس وقت تک وہ ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا۔ ترجمان ابوعبیدہ نے الجزیرہ ٹی وی سے نشر کی گئی ایک آڈیو تقریر میں کہا کہ اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو بازیاب نہیں کراسکے گا۔ انہوں نی یہ بھی دعویٰ کیا کہ حماس کے جنگجوئوں نے غزہ میں دوبارہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 10دن میں 180اسرائیلی جہازوں، ٹینک اور بلڈوزر کو جزوی یا مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ سلامتی کونسل غزہ پٹی میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں ناکام رہی۔ قطر کے دوحہ فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سلامتی کونسل میں تقسیم کی مذمت کی، جس نے عالمی ادارے کو ’’ مفلوج’’ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل جیو سٹرٹیجک تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہوچکی، جس کے نتیجے میں 7اکتوبر سے جاری غزہ جنگ کی روک تھام کا حل نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی قرارداد میں ناکامی سے سلامتی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا ، مگر وہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی اپیلوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سب کچھ ریکارڈ پر ہے، کسی سے کچھ پوشیدہ نہیں اور نہ رکھا جاسکتا ہے۔ دُنیا کی اکثر ظالم کو پہچان چکی اور مظلوم کے ساتھ ہے اور اُس کے لیے آواز بھی بلند کر رہی ہے۔ مفاد کے پجاریوں کی جانب سے زبان بندی اُن کے کردار کا تعین کرنے کے لیے کافی ہے۔ ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اور اب اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ ظالم اسرائیل کا انجام بد زیادہ دُور نہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت دُنیا کو جلد دیکھنے کو ملے گا، جب اس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ ان شاء اللہ فلسطین آزاد اور خودمختار ریاست بنے گی۔ شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ننھے شہدا پر کیے گئے ظلم کا ایک ایک حساب ظالم اسرائیل سے لیا جائے گا۔
پٹرولیم قیمتوں میں کمی کا امکان
وطن عزیز میں اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں خاصی بلند ہیں۔ یہ تو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی تھیں۔ 330روپے فی لٹر سے تجاوز کر چکی تھیں۔ ڈالر کے نرخ بڑھتے چلے جارہے تھے اور پاکستانی روپیہ بے وقعت ہوتا چلا جارہا تھا۔ اس مشقِ ستم کے مستقل جاری رہنے سے نا صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دن بہ دن بڑھتی رہیں بلکہ مہنگائی کے طوفان میں بھی شدّت آتی چلی گئی۔ نگراں حکومت کے دور میں ڈالرز، سونا، کھاد، چینی، گندم اور دیگر اشیاء کے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف پچھلے مہینوں سخت کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا، جس کے نتیجے میں اربوں مالیت کی اشیاء برآمد ہوئیں، ڈالرز و دیگر بیرونی کرنسی برآمد کی گئی، ان مسلسل کارروائیوں کے باعث ڈالر کے نرخوں میں کمی آنی شروع ہوئی۔ اسی بدولت حکومت عوام کو 40روپے فی لٹر پٹرول قیمت میں کمی کا تاریخی ریلیف فراہم کر سکی۔ اب بھی امریکی کرنسی کے نرخ آہستہ ہی سہی کم ہورہے ہیں۔ دوسری جانب پچھلے کچھ عرصے سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ نگراں حکومت نے پٹرول کی قیمت برقرار رکھی جبکہ ڈیزل وغیرہ کے نرخ میں کچھ کمی کی۔ اب پھر سے رواں ماہ کے وسط سے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت میں 5.49ڈالر فی بیرل کی کمی کے بعد 16دسمبر سے ملک میں پٹرول کی قیمت میں 13اور ڈیزل کی قیمت میں 15روپے فی لٹر کمی کا امکان ہے۔ شہریوں نے عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر عوام کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ خیال رہے ملک میں اس وقت پٹرول کی قیمت281.34روپے جبکہ ڈیزل 289.79روپے فی لٹر کی سطح پر ہے، حکومت پٹرولیم مصنوعات کی ممکنہ نئی قیمتوں سے متعلق حتمی فیصلہ 15دسمبر کو کرے گی، جس کا اطلاق 16دسمبر سے ہوگا۔ اس ضمن میں شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر ملک میں قیمتیں بڑھا دیتی ہے تو کمی پر عوام کو ریلیف بھی ملنا چاہیے۔ اس لیے 16دسمبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معقول حد تک کمی یقینی بنائی جائے، تاکہ مہنگائی کے زور میں کمی آسکے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس رہے ہیں۔ پچھلے چند سال سے اُنہوں نے تاریخی گرانی کے نشتر سہے ہیں، جس سے وہ بُری طرح ہلکان ہوچکے ہیں، اُنہیں حکومت کی جانب سے بڑے ریلیف فراہم کرنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو باآسانی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ ان سطور کے ذریعے گزارش ہے کہ حکومت وسیع تر عوامی مفاد میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کرکے عوام کی اشک شوئی کا بندوبست کرے۔