Column

نواز شریف نشیب و فراز کے آئینے میں

یونس آفریدی
نواز شریف 4سال بعد وطن واپس آگئے ہیں، 21اکتوبر کو مینار پاکستان کے مقام پر ایک بڑے جلسے میں انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی کر دیا، نواز شریف ایک بار پھر اقتدار کی جانب بڑھ رہے ہیں، سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ انہیں چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے لیے بلایا گیا ہے، نواز شریف کم و بیش 4دہائیوں سے پاکستانی سیاست میں کار فرما ہیں، آج ان دہائیوں پر محیط نشب و فراز پر نظر ڈالتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاسی تربیت سابق فوجی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ان کی زیرِ سایہ ہوئی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ پنجاب حکومت میں شامل رہے، وہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ بھی رہے۔1981ء میں پنجاب کی کابینہ میں بطور وزیرِ خزانہ شامل ہوئے، پنجاب میں ان کی کارکردگی کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں دیہی ترقی کے حصے کو 70%فیصد تک لانے میں کامیاب ہوئے۔ نوازشریف کے اندر اس تحریک کو اسٹیبلشمینٹ نے بھانپ لیا تھا، آئندہ ملک کے سیاسی نظام میں ان کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے ان کی تربیت پر کام شروع کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران 1985ء میں ملک بھر میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے، جس کے نتیجے میں نواز شریف قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ نواز شریف نے وفاق میں جانے کے بجائے صوبائی سطح پر اقتدار میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مقتدر حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے سیاسی کردار کی اس وقت پنجاب میں ضرورت تھی اس لئے انہیں پنجاب تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 9اپریل 1985ء کو نواز شریف نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلم لیگ کے نام سے ایک جماعت قائم کی گئی جس کا سربراہ سندھ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے محمد خان جونیجو کو بنایا گیا جو پاکستان کے وزیرِاعظم بنا دیئے گئے، تھوڑے عرصہ میں وزیرِاعظم اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نواز شریف کے اختلافات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ اس دوران جنرل محمد ضیاء الحق ایک دورے پر لاہور پہنچے جہاں اخبار نویسوں نے ان سے محمد خان جونیجو اور نواز شریف کے اختلافات کے بارے میں دریافت کیا جس کے جواب میں جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ ’’ نواز شریف کا کلہ بہت مضبوط ہے ‘‘۔ صدر ضیاء الحق کے اس جملے کو اس وقت کے اخبارات نے شہ سرخیوں میں شائع کیا ضیاء الحق کے اس جملے نے ملکی سیاست میں نواز شریف کے کردار کا تعین کر دیا۔ 31مئی 1988کو جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا جبکہ نواز شریف کو نگراں وزیرِاعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا۔ جنرل ضیاء الحق کا یہ طرزِ عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ نواز شریف کے اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ روابط مضبوط ہوتے جارہے تھے 17اگست1988کو ضیاء الحق بہاولپور جاتے ہوئے ایک حادثے کا شکار ہوکر اللہ کو پیارے ہوگئے اس کے بعد مرزا اسلم بیگ نے باگ دوڑ سنبھالی اور انتخابات وقت پر کروانے کے عزم کا اظہار کیا انتخابات ملک بھر سے پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی جبکہ پنجاب میں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کا پلہ بھاری رہا جس کے نتیجے میں نواز شریف پنجاب کے وزیرِ اعلی بن گئے صدر غلام اسحاق خان نے ڈھائی سال میں بے نظیر حکومت کا تختہ الٹ دیا نواز شریف کا سیاسی سفر جاری تھا انتخابات کا اعلان ہوگیا تھا انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا انتخابات میں مذکورہ اتحاد نے کامیابی حاصل کی اور اس طرح نوازشریف نے 6نومبر 1990کو وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا یہ ان کا پہلا دورِ حکومت تھا لیکن جلد ہی نواز شریف کے صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں صدر غلام اسحاق خان نے اپریل 1993میں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر دیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا مگر یہ بحالی وقتی ثابت ہوئی صدر اور وزیرِاعظم کے اختلافات شدید ہونے پر نواز شریف کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف ریاست کے تمام ستونوں پر قبضہ چاہتے تھے ان کی یہی خواہش ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بنی نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد انتخابات میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹوکی حکومت قائم ہوئی جبکہ نواز شریف مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے آئے بے نظیر بھٹو حکومت کو ان کی پارٹی کے اپنے صدر نے برطرف کر دیا جس کے بعد 1997کے انتخابات میںبھر پور اکثریت حاصل کرنے کے بعد نواز شریف دوسری بار وزیرِ اعظم بنے نواز شریف کا دوسرا دور بھی تنازعات سے بھرپور رہا ان کی دوسری مدت میں عدلیہ کے ساتھ ان کہ کشیدگی جاری رہی 1993میں سپریم کورٹ سے نواز شریف حکومت کی بحالی کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج سجاد علی شاہ سے ان کا تنازع رہا 1997میں ایک سماعت کے دوران نواز شریف کے حامیوں نے سپریم کورٹ کی کارروائی کو متاثر کرنے کے لیے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا جسے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے سپریم کورٹ پر حملہ قرار دیا انہوں نے مذکورہ کارروائی کو مرضی کا فیصلہ لینے کا شاخسانہ بھی قرار دیا اس افراتفری میں نواز شریف نی نہ صرف صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا بلکہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو بھی معزول کر دیا نواز شریف کا دور ترقی کی جانب گامزن تھا کہ کارگل کے حوالے سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا جو نواز شریف کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں طے شدہ حملوں سے آگاہ نہیں کیا گیا اکتوبر 1999میں نواز شریف نے آرمی چیف کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران انہیں عہدے سے ہٹا کر دوسرے کو آرمی چیف لگانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور انہیں ان کے دیگر اکابرین کے ساتھ پابندِ سلاسل کر دیا نواز شریف پر سابق آرمی چیف کے طیارہ ہائی جیک کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا جسے طیارہ سازش کا نام دیا گیا مقدمہ میں قتل اقدام قتل دہشت گردی اور کرپشن کی مزید دفعات شامل کی گئیں نواز شریف کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا گیا جہاں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی جس کے بعد انہیں جلا وطن کر دیا گیا پرویز مشرف کی صدارت کے دوران 2002 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کا کردار یکسر ختم کردیا گیا 2007 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں جلاوطنی ختم کرکے نوازشریف اسلام آباد پہنچے لیکن انہیں طیارے سے اتر نے نہیں دیا اور انہیں چند گھنٹوں بعد دوبارہ سعودی عرب بھیج دیا گیا نواز شریف نے جلاوطنی کے دوران 2006 میں بے نظیر بھٹو سے لندن میں ملاقات کرکے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لے میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ کیا تاکہ پرویز مشرف سے چھٹکارا حاصل جاسکے 2007میں نواز شریف نے ایک بار پھر وطن واپسی کا رخ کیا اور لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیافروری 2008 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ دوسری اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور انھوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرنے کے معاہدہ کیا۔ لیکن یہ شراکت داری زیادہ عرصے قائم نہیں رہی اور اختلافات بڑھنے کے بعد نواز لیگ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی دو سال بعد مئی 2013میں ہونے والے قومی انتخابات میں نواز شریف کی جماعت نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی جس کے بعدانہوں نے تیسری بار وزراتِ عظمی سنبھالی لیکن اس بار نواز شریف کے سامنے ان کے نئے سیاسی حریف اور سابق کرکٹر عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف موجود تھی جنہوں نے نواز لیگ پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور حکومت ختم کرانے کے لیے اگست 2014سے دسمبر 2014تک اسلام آباد میں مسلسل دھرنے دئیے۔ سال 2016میں نواز شریف کے زوال کا آغاز ہوا جب مارچ کے مہینے میں پاناما پیپرز کے نام سے کاغذات منظر عام پر آئے اور ان میں شریف خاندان کے افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان نے حکومت مخالف مظاہروں کا ایک بار پھر سلسلہ شروع کیا اور نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا چند ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے نومبر 2016میں ان الزامات کی تفتیش کے لیے حکم دیا اسی سال اکتوبر میں ڈان لیکس کی خبر منظر عام پر آئی۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد حکومت کو سخت دبا کا سامنا کرنا پڑا جنوری 2017سے شروع ہونے والی سماعتوں کی تکمیل اپریل 2017کو ہوئی جب پانچ رکنی بینچ نے تین دو سے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں کے بارے میں مزید تفتیش کا حکم دیا دوسری تفتیش کی تکمیل جولائی 2017میں ہوئی جس میں نواز شریف کو متحدہ عرب امارات میں کام کرنے کا اقامہ ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر صادق اور امین کی شق کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور پانچ صفر کی اکثریت کے ساتھ انھیں اسمبلی سے نااہل قرار دیا گیا اس فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف کے خلاف تین ریفرنسز کی بھی تحقیقات کی جائیں گیا احتساب عدالت میں ستمبر 2017میں شروع ہونے والی کاروائی کا سلسلہ تقریباً دس ماہ تک جاری رہا جس میں نواز شریف نے 80سے زائد پیشیوں میں حاضری دی اسی اثنا میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو کینسر کی وجہ سے لندن میں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا احتساب عدالت میں پیشیوں کے ساتھ ساتھ نواز شریف نے ملک بھر میں ریلیوں کا آغاز کر دیا جس میں انہوں نے ’ ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ پیش کیا اور اپنے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں کو ایک سازش قرار دیا گزشتہ سال کی طرح ایک بار پھر جولائی کے مہینے میں عدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا اور جج محمد بشیر نے نواز شریف پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کی بنا انھیں دس سال قید بامشقت اور آٹھ ملین پائونڈ کے جرمانے کی سزا سنائی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد 13جولائی کو نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ وطن واپس لوٹ آئے جہاں انھیں ایئرپورٹ سے ہی حراست میں لے لیا گیا اور اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیاحراست میں لیے جانے کے بعد نواز شریف کو جیل سے ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست دیکھنی پڑی۔
جہاں ان کے خلاف پاناما پیپرز کا مقدمہ دائر کرنے والے حریف عمران خان نے اگست میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا دورانِ حراست نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کا لندن میں کینسر کے باعث انتقال ہو گیا جس کے بعد نواز شریف کو پیرول پر رہا کر دیا گیا تاکہ وہ ان کے جنازے میں شرکت کر سکیں کلثوم نواز کے انتقال کے چند روز بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی جانب سے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا نتیجہ سامنے آگیا جس نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کر دیا29 اکتوبر 2019 کو العزیزیہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قید کے دوران طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کی نواز شریف چار ہفتوں کی اجازت پر بیرون ملک چلے گئے۔
نواز شریف 19نومبر 2019بیرونِ ملک روانہ ہوئے اس سے پہلے 16نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چار ہفتوں کے لیے نواز شریف کو طبی معائنے کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی اور حکومت کو ان کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیا گیانواز شریف کی بیرون ملک موجودگی کے دوران ملک میں سیاسی طور پر بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور نواز شریف کے بدترین مخالف عمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم نے حکومت قائم کی اسے نواز شریف کی مکمل آشیر باد حاصل رہی بالآخر نواز شریف پاکستان لوٹ آئے ہیں اور انہوں نے سیاسی طور پر انتقام نہ لینے کا بھی اعلان کر دیا ہے جبکہ انہوں نے ملک کی بد ترین معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کا بھی اعلان کیا ہے نواز شریف کو عدالتوں سے ریلیف بھی ملنا شروع ہوگیا ہے اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان کی نااہلی بھی ختم ہوجائے اور وہ چوتھی بار پاکستان کے وزیرِ اعظم بن جائیں نواز شریف نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ بھی دیا عین ممکن ہے کہ وہ پاکستان کو گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں دیکھنا یہ ہوگا کہ تنازعات کا شکار رہنے والے نواز شریف میں کس حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہوئی ہے ان کی حکومت قائم ہونے کے بعد انہیں اب ہر صورت پانچ سالہ مدت پوری کرنا ہوگی کیونکہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button