غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کیخلاف کارروائیاں شروع

ماہِ اکتوبر کے اختتام کے ساتھ ہی غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کو حکومت کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن ختم ہوئی اور اب ان کی پاکستان بدری کے لیے کریک ڈائون کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ملک بھر میں کارروائیاں جاری ہیں۔ ایسے افراد کو گرفتار کرنے کے بعد حکومت کی جانب سے قائم کردہ ہولڈنگ سینٹرز میں رکھا جائے گا اور پھر وہاں سے ان کو ان کے ممالک منتقل کیا جائے گا۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران پاکستان کی معیشت زوال پذیر دِکھائی دیتی ہے۔ وسائل پہلے ہی تھوڑے ہیں، اُس پر غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے مزید بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ پاکستان عرصۂ دراز سے ان اَن چاہے مہمانوں کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ یہاں کئی ممالک کے باشندے بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان میں سے اکثریت غیر قانونی طور پر بغیر کسی دستاویزات کے یہاں کے شہریوں کی مانند ہر طرح کے حقوق پارہے اور زیست بسر کررہے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ خاص طور پر افغانستان سے تعلق رکھنے والے باشندے سب سے زیادہ تعداد میں وطن عزیز میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ 1979میں سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کے بعد بے شمار افغان باشندے اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان میں آبسے، یہیں روزگار کمایا، یہیں ان کے بچوں نے تعلیمی مدارج طے کیے، یہیں کاروبار جمائے، اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں اور ان کی تین نسلیں یہیں پروان چڑھیں۔ مہمانوں کو بھی میزبان کی مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے، لیکن افسوس مہمانوں کی جانب سے ایسی ایک بھی ریت قائم نہیں کی گئی۔ ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں پوری شدّت کے ساتھ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے پاکستان سے انخلا کے مطالبات سامنے آتے رہے، حکومتیں بیان بازیوں سے آگے کچھ نہ کرسکیں۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے ناصرف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے، جس کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں بلکہ ملک کے مختلف حصّوں میں لوٹ مار، ڈکیتی، چوری، رہزنی اور دیگر جرائم میں بھی ان کی بڑی تعداد کے ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت کے دھندوں میں بھی یہی عناصر ملوث بتائے جاتے ہیں۔ غیر قانونی مقیم باشندے بہت سے مسائل کی وجہ بن رہے تھے۔ اس تناظر میں ان کی پاکستان سے بے دخلی ناگزیر تھی۔ نگراں حکومت نے گزشتہ ماہ تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی پاکستان بدری کا بڑا فیصلہ کیا اور 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن دی۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد غیر قانونی پناہ گزین ازخود اپنے ملکوں کو لوٹ چکے ہیں اور بڑی تعداد میں واپس جانے کی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔ چونکہ حکومتی ڈیڈلائن ختم ہوچکی ہے، لہٰذا اب ملک کے طول و عرض میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزارت داخلہ نے بھی اپنا اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے غیرقانونی مقیم ایک لاکھ 40 ہزار 322 افراد اپنے ممالک واپس جاچکے ہیں اور یہ تمام افراد رضا کارانہ طور پر اپنے ملک واپس گئے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یکم نومبر سے غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاری اور ملک بدری کا عمل شروع ہوچکا، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی بھی جاری رہے گی۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان سے واپس جانے والوں اور ملک بدر کیے جانے والوں سے عزت و احترام کا برتائو کیا جائے گا، خوراک و طبی امداد سمیت تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ لیویز حکام کے مطابق مختلف علاقوں سے درجن بھر غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ ملک بھر سے افغان مہاجرین کی غیرمعمولی تعداد چمن پہنچ گئی ہے۔ کنٹرول روم کا بتانا ہے کہ افغان مہاجر خاندانوں کو رجسٹریشن کے بعد کیمپ منتقل کیا جارہا ہے اور کیمپ میں اب تک 5ہزار افغان مہاجر پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب کراچی میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائیوں کے دوران گرفتار 4افغان شہریوں کو ہولڈنگ کیمپ منتقل کردیا گیا ہے۔ مہلت ختم ہونے سے پہلے غیر قانونی مقیم افراد کے لیے مساجد سے اعلانات بھی کیے گئے تھے۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کا اقدام لائقِ تحسین ہے۔ دوسروں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے، وگرنہ اُن کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اندازوں سے کم تعداد غیر قانونی پناہ گزینوں کی اپنے ملکوں کو لوٹی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ لوگ بھی رضاکارانہ طور پر نہ جاسکے اور اس انتظار میں لگتے ہیں کہ شاید یہ معاملہ ٹل جائے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوجانا چاہیے۔ انہیں ان کے گھر تک چھوڑ کر آنے کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کی ان کے ملکوں کو منتقلی کا عمل پُرامن ہونا چاہیے، اس میں کسی بھی قسم کا کوئی تنازع جنم نہ لے سکے، اس بات کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہیے۔ دوسری جانب ملک بھر میں ایسے باشندوں کے خلاف سخت ترین کریک ڈائون کیا جائے، انہیں گرفتار کیا جائے اور جلد از جلد ان کے ملکوں کو واپسی کا بندوبست کیا جائے۔ یہ آپریشن اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کا پاکستان سے مکمل انخلا نہیں ہوجاتا۔
ابتدائی 4 ماہ کا ٹیکس وصولی ہدف حاصل
ملک عزیز میں سالہا سال تک ٹیکس وصولی کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ رہی ہے۔ اکثر بااثر عناصر ٹیکس چوری ڈھٹائی کے ساتھ کرتے ہیں اور ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے لیے مختلف حیلے بہانے اختیار کرتے ہیں۔ اس کے لیے بدعنوانی کا سہارا لیا جاتا ہے اور کچھ رقم ادا کرکے بھاری ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جایا جاتا ہے۔ کئی اہم شخصیات کی جانب سے بھی یہ ناپسندیدہ روش اختیار کی جاتی ہے۔ کئی عشروں سے ٹیکس چوری کے ذریعے ملکی خزانے کو ہر سال اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ ٹیکس چوری کی روش کے باعث ملک کو سالہا سال تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹیکس وصولی پر ہی ملکی نظام کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر ٹیکس وصولی ہدف کے مطابق نہ ہو تو حکومت کو نظام مملکت چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سابق ادوار میں اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کا فقدان رہا، اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے گئے۔ اب ٹیکس وصولیوں کے ضمن میں سخت اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔ رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران ٹیکس وصولیوں کا ہدف بہ احسن و خوبی حاصل کرلیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں مزید توسیع نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ ایف بی آر نے مالی سال کے 4 ماہ میں 37 فیصد اضافے سے 2 ہزار 748 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے۔ گزشتہ سال اسی عرصے میں 2 ہزار 159 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوئے تھے۔ ایف بی آر کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 682 ارب روپے تھا، ایف بی آر نے اپنے ہدف سے 66 ارب روپے زیادہ اکٹھے کیے۔ اعلامیے کے مطابق ایف بی آر نے اکتوبر میں 707 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے، اکتوبر کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 516 ارب روپے تھا۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنا بلاشبہ بڑی کامیابی ہے۔ اس سلسلے کو آگے بھی جاری رہنا چاہیے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ٹیکس چوری کی روش کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔ ٹیکس چوروں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ ان کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ ایسی ریت ڈالی جائے کہ ہر سال ٹیکس وصولی کے اہداف مکمل طور پر باآسانی حاصل کیے جائیں۔ اس کے لیے مناسب حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔