Editorial

بجلی چوری روکنے کیلئے کوششیں تیز کرنیکا حکم

وطن عزیز میں بجلی کے حوالے سے صورتحال پچھلے 15، 20سال سے خاصی گمبھیر ہے۔ قوم توانائی کے بدترین بحران سے گزر چکی ہے۔ اب بھی اس حوالے سے حالات بہتر قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ ملک کے طول و عرض میں موسم گرم ہو یا سرد، لوڈشیڈنگ کے طویل سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ ہر شہر کے کچھ علاقوں میں ضرور لوڈشیڈنگ نہیں ہے، لیکن اکثریت میں بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ اس پر طرّہ بجلی چوری کی وارداتیں بھی پورے ملک میں بڑے طمطراق سے جاری رہتی ہیں۔ بجلی کے نادہندگان بھی بڑی تعداد میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ بجلی چوری کی بدترین روایت اور بجلی استعمال کرکے بل نہ بھرنے کی مذموم روش اُن صارفین پر گراں گزرتی ہے، جو ہر ماہ باقاعدگی سے بجلی بل ادا کرکے محب وطن شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان چوروں اور نادہندگان کی حرکتوں کا بوجھ باقاعدگی سے بل بھرنے والوں پر آپڑتا ہے۔ ملک عزیز میں پہلے ہی بجلی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ مہنگی ہے۔ چین، بھارت، بنگلہ دیش، ایران و دیگر میں بجلی بل وہاں کے صارفین کی آمدن کے معمولی سے حصّے پر محیط ہوتے ہیں جب کہ پاکستان میں صارفین کو بجلی کی سہولت کے عوض اپنی آمدن کا بہت بڑا حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے۔ یہاں بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کے بجائے مہنگے ذریعوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ بجلی کی قیمت آسمان پر پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں بجلی چور مزید سنگین چیلنج بن گئے ہیں، جو لائن لاسز میں ہر برس ہولناک اضافے کی وجہ ثابت ہورہے ہیں۔ ملک بھر سے بجلی چوری کے خاتمے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے بجلی چوری کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں مہم جاری ہے، ہزاروں بجلی چور گرفتار کیے جاچکے، اربوں روپے ان سے وصول کیے جاچکے۔ مجموعی طور پر اس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے سخت ترین کریک ڈائون ناگزیر ہے اور اس کو اُس وقت تک جاری رکھا جانا چاہیے، جب تک ملک عزیز سے بجلی چوری کی مذموم مشق کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ اس ضمن میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی کوششیں تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے زیر صدارت بجلی چوری روکنے کی مہم کی پیش رفت پر جائزہ اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم کو مہم کے آغاز سے لے کر اب تک کے نتائج کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کو مہم کے نتائج کے اعشاریوں سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مہم میں 19415بجلی چوروں کو گرفتار کیا گیا ہے، ستمبر سے اب تک بجلی چوری کے خلاف 39836ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں اور بجلی چوری میں ملوث 189سرکاری افسروں کو معطل کیا جا چکا ہے۔ مردان میں انسداد بجلی چوری مہم سب سے زیادہ کامیاب رہی، جس میں بجلی چوری کی شرح 43فیصد سے کم ہوکر 13فیصد تک آگئی۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ مہم کے آغاز سے 30ستمبر تک14ارب روپے کی وصولیاں کی جا چکی ہیں۔ متعلقہ حکام نے مہم کے دوران پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو آزاد جموں و کشمیر، کوئٹہ اور سندھ میں بجلی چوری روکنے کی کوششوں کو تیز کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو بلوچستان میں بجلی چوری روکنے کی مہم کے خلاف مزاحمت اور دیگر مسائل کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری ذمے داری ہے کہ بجلی چوری روکنے کی مہم جیسے اقدامات کے ذریعے آئندہ جمہوری حکومت کے لیے ایک مستحکم نظام تشکیل دیں۔ اجلاس میں نگران وزیر داخلہ، نگران وزیر توانائی، نگران وزیر اطلاعات و نشریات، صوبائی چیف سیکرٹریز اور متعلقہ وفاقی سیکرٹریز موجود تھے۔ بجلی چوروں کے خلاف شروع کردہ مہم کے مثبت اثرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر کسی خرابی کو درست کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں تو اُس کے بہتر نتائج ضرور نکلتے ہیں۔ نگراں وزیراعظم نے جو ہدایات دی ہیں، اُن پر اگر مِن و عن عمل درآمد کیا گیا تو اُس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ ضروری ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف مہم میں تیزی لائی جائے۔ سخت ترین کریک ڈائون کیا جائے۔ کسی بجلی چور کو ہرگز نہ چھوڑا جائے۔ پورے ملک سے بجلی چوری کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے کارروائیوں کو تسلسل سے جاری رکھا جائے۔ بجلی چوروں کی طرح ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے خلاف ملک بھر میں جاری کریک ڈائون کے بھی حوصلہ افزا اثرات معاشرے پر مرتب ہوئے ہیں۔ ڈالر کے نرخ مسلسل گرتے رہے۔ پٹرول کی قیمت میں تاریخی کمی ممکن ہوسکی۔ ہوم اپلائنسز کے نرخ گرے۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔ اشیاء ضروریہ کے دام بھی گر رہے ہیں۔ بجلی کے حوالے سے صورت حال میں بہتری کے لیے راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ سستی بجلی ہر غریب کا خواب ہے۔ اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے حکومت کو بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت ہوچکا، اب تو بجلی کی پیداوار کے مہنگے ترین ذرائع سے جان چھڑائی جائے اور سستے ذرائع ( سورج، ہوا، پانی) سے بجلی کا حصول ممکن بنایا جائے۔ اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں اور انہیں جتنا جلد ہوسکے پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ چھوٹے ہوں، یا بڑے ڈیموں کی تعمیر تیزی سے کی جائے، اس سے نا صرف برسہا برس سے درپیش آبی قلت کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوسکے گا، بلکہ وافر پن بجلی کا حصول بھی یقینی ہوجائے گا۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں اس جانب سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
فری لانسرز کو بلاسود قرض دینے کا احسن فیصلہ
پچھلے ڈیڑھ دو عشروں کے دوران اُن ممالک نے ترقی کے سفر کو انتہائی سُرعت سے طے کیا ہے، جنہوں نے آئی ٹی کے شعبے پر تمام تر توجہ مرکوز رکھی اور ان ملکوں کے نوجوانوں نے بڑی تعداد میں اس شعبے میں اپنی عظیم ترین خدمات فراہم کرکے ترقی و خوش حالی کی منازل کو حیرت انگیز طور پر طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے کئی ممالک کی مثال دی جاسکتی ہے، جن کا آئی ٹی شعبے میں طوطی بولتا ہے۔ اس شعبے میں دُنیا بھر میں بڑی تعداد میں فری لانسرز اپنی سروسز فراہم کرکے معقول آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں اس شعبے پر وہ توجہ نہ دی جا سکی، جس کی ضرورت تھی۔ یہاں تو ماضی میں آئی ٹی کے وزیر بھی ایسے شخص رہے جو شعبے کی ترقی پر تو کوئی توجہ نہ دے سکے، لیکن اُن کے ارشادات سوشل میڈیا پر میمز کی صورت وائرل ہوکر لوگوں کی ہنسی کا سامان ضرور بنتے رہے۔ سرکاری سطح پر بیانات کی حد تک آئی ٹی شعبے کی ترقی کے بھاشن سامنے آتے رہے، حقیقت میں وہ سب کچھ نہ کیا جاسکا، جس کی ضرورت تھی۔ ہمارے ملک میں اس شعبے میں فری لانسرز ضرور ہیں، لیکن ان میں سے اکثریت نامساعد حالات کا سامنا کررہی ہے۔ ان کی بہتری اور سہولت کی فراہمی کے لیے اقدامات کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس ضمن میں نگراں وفاقی حکومت نے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نگراں وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈاکٹر عمر سیف نے کہا ہے کہ ہر فری لانس کو اپنا ای ورکنگ سینٹر قائم کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے کی مالی امداد ملے گی۔ نگراں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ای ورکنگ سینٹرز کے قیام کے لیے فری لانسرز کو بلاسود قرضے فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہر فری لانس کو اپنا ای ورکنگ سینٹر قائم کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے کی مالی امداد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کا مقصد فری لانسرز کے لیے مناسب کام کی جگہوں کی کمی کے چیلنج سے نمٹنا تھا، تاکہ وہ ایک سازگار اور پُرامن ماحول میں کام کر سکیں۔ ڈاکٹر سیف نے زور دے کر کہا کہ ہر فری لانسر سالانہ 30ہزار ڈالر تک کما سکتا ہے، جو قومی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ ان اقدامات سے آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات میں 3بلین ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ انتہائی احسن فیصلہ ہے۔ ضروری ہے کہ فری لانسرز کی سہولت کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔ آئی ٹی کے شعبے کی ترقی کے لیے کوششیں کی جائیں۔ اس شعبے میں ہر صورت بہتری لائی جائے، تاکہ ملک عزیز میں اس کے ذریعے ترقی و کامرانی کی راہ ہموار ہوسکے۔

جواب دیں

Back to top button