قومی ایئرلائن کو درپیش مشکلات

قومی ایئرلائن پی آئی اے گزرے وقتوں میں ملک کی آن، بان اور شان کا باعث تھی۔ دُنیا بھر میں اس کی بہترین خدمات کا طوطی بولتا تھا۔ پاکستانی اس پر ناصرف فخر کرتے تھے بلکہ بیرون ممالک کے لوگ بھی اس پر سفر کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ دُنیا بھر میں نئی قائم ہونے والی ایئرلائنز پی آئی اے کی تقلید کرتی تھیں۔ بہت سی ایئرلائنز کو فعال کرنے میں قومی ایئرلائن کا کلیدی حصّہ رہا۔ وہاں کے عملے کو تربیت پی آئی اے کے ذریعے فراہم کی گئی۔ پی آئی اے اُس وقت انتہائی نفع بخش ادارہ تھا، جو قومی خزانے میں سالانہ اپنا بھرپور حصّہ ڈالتا تھا اور ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ وقت بیتا تو اس ادارے کو نہ جانے کس کی نظر لگی کہ دن گزرتے گئے اور اس کی کارکردگی زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔ اس کے بیڑے میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ کرپشن کی دیمک نے اس ادارے کو چاٹ ڈالا۔ مختلف حکومتوں نے اپنے ادوار میں اس کی بہتری کے لیے کوششیں کیں۔ اس ادارے کے مختلف سربراہان مقرر کیے گئے۔ مگر مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ اس وقت حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ یہ ادارہ کئی سال سے قومی خزانے پر بدترین بوجھ ثابت ہورہا ہے۔ ملازمین کی بھرمار ہے۔ کارکردگی کچھ نہیں۔ پی آئی اے کا جہاز سمندر کی گہری کھائیوں میں ڈوب رہا ہے اور اسے سنبھالا دینے والا کوئی نہیں۔ اس کے گھاٹے کے منفی اثرات قومی خزانے پر مرتب ہورہے ہیں۔ حکومت کے لیے اس کو چلانا کسی کٹھن امتحان سے کم نہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے قومی ایئر لائن کے حوالے سے اچھی اطلاعات سامنے نہیں آرہیں، حالات افسوس ناک حد تک خراب ہوچکے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کو بینک میں رقم منتقل نہ ہونے کے باعث پی ایس او نے ایئر پورٹس پر پی آئی اے کے طیاروں کو ایندھن دینے سے معذرت کرلی، جس کے نتیجے میں قومی ایئر لائن کا آپریشن مکمل طور پر بند ہوگیا اور 50پروازیں اڑان نہ بھر سکیں۔ اگلے روز یہ آپریشن جزوی طور پر بحال ہوا۔ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی ہٹ دھرمی برقرار ہے اور اس نے قومی ایئرلائن کو ایندھن کی فراہمی مکمل بند کردی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے پی آئی اے ہر روز کی پروازوں کے ایندھن کے پیسے پیشگی ادا کررہا ہے، گزشتہ روز بھی 220 ملین روپے ادا کیے گئے تھے، تاہم اتوار کی صبح بینک بند ہونے اور رقم منتقل نہ ہونے پر پی ایس او کی جانب سے قومی ایئرلائن کو ایندھن دینے سے انکار کردیا گیا، جس کے نتیجے میں قومی ایئرلائن کا آپریشن مکمل طور پر بند ہوگیا اور 50پروازیں اڑان نہ بھر سکیں اور مسافر رل گئے، لیکن حکومتی ایما پر قومی ایندھن کمپنی کسی قسم کی رعایت دینے پر راضی نہیں ہے۔ کراچی اسلام آباد کی 3پروازیں پی کے 300، 308اور 340، اسلام آباد کراچی کی 2پروازیں پی کے 301اور 369منسوخ کر دی گئیں۔ لاہور سے کراچی کی 2پروازیں پی کے 303اور 307، کراچی لاہور کی 3پروازیں 302، 304اور 306جبکہ کراچی سے گوادر، بہاولپور، فیصل آباد کی دوطرفہ 6پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ سیالکوٹ سے مسقط جانے والی دو طرفہ پروازیں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ ہفتہ کی شب پی آئی اے کی 4پروازیں بیرون ملک روانہ ہوئی تھیں، جن میں چین، کوالالمپور، کینیڈا اور استنبول کی پروازیں شامل ہیں۔ بیرون ملک گئے پی آئی اے کے جہاز ہی واپس آسکیں گے۔ پی آئی اے نے انتہائی ضروری پروازیں آپریٹ کرنے کے لیے پی ایس او کو قبل از وقت 22کروڑ روپے کی ادائیگی کی تھی۔ یہ ادائیگیاں پلان B کے تحت محدود آپریشن کے تناظر میں ہفتے اور اتوار کی منافع بخش روٹس کی پروازوں کے لیے کی گئی تھیں۔ ایوی ایشن ماہرین نے بتایا کہ ایک سرکاری ادارے کا دوسرے حکومتی ملکیتی ادارے کو رعایت دینے سے انکار حیرت انگیز بات ہے، پی آئی اے کی نج کاری سے قبل ایسے اقدامات رائے عامہ ہموار کرنے کی حکومتی حکمت عملی لگتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس نہج پر پہنچنے سے بہت پہلے ہی حکومتی وزارتیں آپس میں معاملات طے کرلیتی ہیں، سیکریٹری ایوی ایشن اپنے پٹرولیم کے ہم منصب کے ساتھ یہ مسئلہ اگر حل نہیں کرواسکتے تو یا یہ نالائقی ہے یا سوچا سمجھا منصوبہ، قومی ایئرلائن کے ساتھ ہی نجی ایئر لائنز اپنے کرایوں میں کئی گنا اضافہ کریں گی، جس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا ہوگا۔ دوسری طرف پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے کہا کہ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کو فیول کی فراہمی بند نہیں کی۔ پی ایس او ترجمان کے مطابق جمعہ کی رات سے اب تک 64فلائٹس کو فیول فراہم کیا جاچکا ہے۔ بعدازاں پی ایس او کی جانب سے فیول کی فراہمی پر قومی ایئرلائن کا فلائٹ آپریشن جزوی طور پر بحال ہوگیا، جس کے بعد کرچی، اسلام آباد، لاہور اور ملتان سے جدہ کے لیے پروازیں روانہ ہوگئیں۔ اسلام آباد سے ایک پرواز ریاض کے لیے بھی روانہ ہوگئی۔ پی آئی اے کی اس صورت حال پر محب وطن عوام کے دل خون کے آنسو روتے ہیں۔ کاش یہ ادارہ پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے۔ ضرورت سے زائد ملازمین اس ادارے پر بدترین بوجھ ہیں۔ اس کی نج کاری کی باتیں ہورہی ہیں۔ پی آئی اے کی حالتِ زار پر پوری قوم مایوس ہے۔ ضروری ہے کہ اس ادارے کی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اس میں پائی جانے والی خرابیوں کی نشان دہی کی جائے اور انہیں فوری دُور کیا جائے۔ بے قاعدگیوں پر قابو پایا جائے۔ بدعنوانی کے عفریت کو اس سے اُکھاڑ کر پھینکا جائے۔ یہ اب بھی نفع بخش بن سکتا ہے، بلکہ سنجیدگی سے اس کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نیک نیتی پر مبنی کوششیں قومی ایئرلائن کے لیے ٹانک ثابت ہوسکتی ہیں اور اس میں پائی جانے والی بیماریوں کے خاتمے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ پی آئی اے ملک و قوم کی پہچان ہے۔ اس پہچان کی خاطر حکومت سنجیدہ اقدامات بروئے کار لائے اور اس کو پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کوشاں ہوجائے۔
پولیو وائرس کے حوالے سے تشویشناک صورتحال
وطن عزیز سے عرصہ دراز سے جاری کوششوں کے باوجود بھی پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے، دُنیا بھر سے اس وائرس کو ختم کر دیا گیا ہے، پاکستان سمیت چند ایک ممالک ہی میں یہ اپنا وجود رکھتا ہے، باقی پوری دُنیا اس کے خلاف موثر کوششیں کرکے کامیابی حاصل کر چکی ہے، مگر افسوس پاکستان سے یہ ختم نہ ہوسکا۔ حکومت کی جانب سے اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات بھی کیے گئے۔ وقتاً فوقتاً پولیو سے بچائو کی مہمات بھی شروع ہوتی رہتی ہیں، بڑے پیمانے پر ملک کے طول و عرض میں بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اس کے خاتمے میں کامیابی نہیں مل رہی۔ اس کی وجہ بعض والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے نہ پلانا ہے، کیونکہ پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین سے متعلق من گھڑت اور جھوٹے پراپیگنڈے عرصہ دراز سے سامنے آرہے ہیں، اس ویکسین کے خلاف طرح طرح کی مذموم مہمات جاری رہتی ہیں، بعض بچوں کے والدین ان پراپیگنڈوں کی زد میں آجاتے ہیں اور اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے نہیں پلاتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ملک کے کسی نہ کسی گوشے سے پولیو سے متاثر بچہ سامنے آتا رہتا ہے۔ عمر بھر کی معذوری اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ گو پولیو مہمات سے خاصی حد تک پولیو کیسز میں کمی آئی ہے، تاہم مکمل خاتمے کی منزل ابھی دُور ہے۔ پولیو وائرس کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹس ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہوئی ہے، جس میں ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے ہیں۔خبر کے مطابق حکومت کی غفلت کے باعث مہلک مرض پولیو کا وائرس ملک بھر کی سیوریج لائنز میں پھیل گیا اور ایک ماہ میں دوسری بار تمام صوبوں کی سیوریج لائنیں پولیو پازیٹو نکلی ہیں۔ قومی ادارہ صحت کے ذرائع کے مطابق حال ہی میں ملک کے چاروں صوبوں کے سات شہروں کے ریکارڈ ماحولیاتی نمونوں میں زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے والے پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد رواں برس پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز کی مجموعی تعداد 54 ہوگئی ہے، جن شہروں کی سیوریج لائنز پولیو وائرس سے آلودہ نکلی ہیں ان میں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ سمیت پشین، چمن اور بنوں شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ سات شہروں کے سیوریج میں وائلڈ پولیو وائرس وَن کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان شہروں کی سیوریج سے پولیو ٹیسٹ کے لیے سیمپلنگ 2سے 5اکتوبر تک کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ پشاور کے چار نمونوں سے پولیو پازیٹو نکلا۔ پشاور کے علاقوں حیات آباد، یوسف آباد، تاج آباد اور نرے خوڑ کا سیوریج پولیو پازیٹو نکلا اور چاروں سیمپلز میں پولیو وائرس کا جینیاتی تعلق لاہور سے ہے۔ کوئٹہ سے تین پولیو پازیٹو نمونے سامنے آئے، کراچی میں دو سیوریج سیمپلز میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی جو کیماڑی اور اورنگی سے لیے گئے تھے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس حوالے سے ذرا بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ پولیو وائرس کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو اس کو مکمل طور پر شکست دینا ہوگی۔ اس کے پھیلائو کے تمام تر راستے مسدود کرنے ہوں گے۔ ملک کو پولیو فری بنانے کے لیے راست کوششیں کی جائیں اور اس مشن کو ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔