ColumnFayyaz Malik

چارلس مارسٹن سے خادم حسین رند تک کی، کراچی پولیس

تحریر : فیاض ملک
اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ17فروری1839 ء کو کراچی پر برطانوی تسلط قائم ہونے کے بعد یہ برصغیر کا پہلا اور دنیا کا دوسرا شہر تھا جس کو ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں سلطنت برطانیہ میں شامل کیا گیا تھا۔ برطانوی فوج کے جنرل چارلس نیپئیر نے اپنے دور میں کراچی پولیس کا پہلا سربراہ برطانوی فوج کی 25 ویں رجمنٹ کے لیفٹنٹ مارسٹن کو بنایا تھا، 1822ء کو پیدا ہونیوالے مارسٹن 1939ء میں بمبئے آرمی کا حصہ بنے اور یکم مئی 1843ء میں انہیں کراچی پولیس چیف بنایا گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو نوازنے کی وجہ میانی کی جنگ میں چارلس نیپئیر کی جان بچانا تھی، نیپئیر نے صرف اسی بنا پر18سالہ مارسٹن جوکہ ان دنوں کراچی کے کلکٹر اور مجسٹریٹ کیپٹن پریڈی کے ماتحت خدمات انجام دے رہے تھے، یہی نہیں بعد میں لیفٹنٹ مارسٹن کو ان کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے مزید ترقی دیکر سندھ پولیس کا سربراہ بنایا گیا تھا مارسٹن نے سندھ پولیس کی تشکیل ایک الگ انداز سے انہوں نے سندھ پولیس کو تین برانچوں میں تقسیم کیا جس میں ماونٹڈ پولیس، رورل پولیس اور سٹی پولیس شامل ہیں جبکہ ایک مسلمان سندھی شخص غلام حسین کو کراچی پولیس کا چیف کانسٹیبل مقرر کیا گیا۔ غلام حسین کا تعلق بھی برطانوی فوج کی 25ویں رجمنٹ سے تھا، کراچی پولیس کا محکمہ ان دنوں کراچی میونسپلٹی کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔ کراچی پولیس اپنے قیام کے دنوں میں ایک انسپکٹر، دو سب انسپکٹر اور کچھ کانسٹیبل پر مشتمل تھی، تاہم کراچی کی آبادی میں ہونیوالے اضافہ کیساتھ ساتھ پولیس نفری میں بھی اضافہ ہوتا گیا، کراچی پولیس میں ان دنوں زیادہ تعداد بلوچ سپاہیوں کی تھی۔1867ء میں کمشنر سندھ مسٹر ہیولاک کے دور میں پولیس کے عملے کے فارسی القاب صوبیدار، رسالدار، حوالدار،جمعدار، سپاہی اور سوار جوکہ تالپور دور سے چلے آرہے تھے انھیں تبدیل کردیا جسکے بعد پولیس اہلکاروں کو نئے انتظام کے تحت انسپکٹر، سب انسپکٹر، چیف کانسٹیبل ،ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل کے ناموں سے پکارا جانے لگا ، ریکارڈ کے مطابق 188788میں کراچی پولیس کے عملے کی تعداد 298پر مشتمل ہوتی تھی جس میں 1انسپکٹر اور 9کانسٹیبل یورپی باشندے تھے جبکہ کراچی میں سب سے پہلا پولیس تھانہ بولٹن مارکیٹ کے سامنے اس جگہ پر قائم تھا جہاں آج سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پرانی عمارت واقع ہے، یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کراچی واحد شہر تھا جہاں سول اور فوجی معاملات کو چلانے کیلئے علیحدہ علیحدہ گورنرز مقرر کئے گئے تھے جنہیں نواب بھی کہا جاتا تھا۔ گورنر کے بعد دوسرا اہم سول عہدہ کاردار کا تھا جس کے فرائض میں انتظامیہ، عدلیہ ، پولیس سے متعلق معاملات کو دیکھنا تھا کاردار بڑے شہروں میں مقرر کئے گئے تھے جبکہ گاوں میں یہ کام نائب کاردار انجام دیا کرتے تھے ۔ کراچی پولیس نے اپنے ابتدائی ادوار میں تفتیش کے روایتی طریقوں کو بھی سب سے پہلے رائج کیا۔ اس زمانے میں کھوجی جو کسی واردات کے بعد اپنے تجربے سے تفتیش میں مدد دیتے تھے انہیں بھی پولیس نظام کا حصہ بنایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی پولیس میں مختلف تبدیلیاں کی گئی اور اس کو جدید خطوط پر استور کیا گیا ، اب کراچی پولیس ایک ریجن بن چکی ہے جو سی آئی اے، ٹریفک پولیس، سیکیورٹی، فارنرز سکیورٹی سیل، مددگار 15، محافظ، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ ایس ایس یو، آر آر ایف، کورٹس سیکیورٹی اور اسپیشل برانچ پر مشتمل ہے، جبکہ سی آئی اے اور ٹریفک پولیس کا سربراہ ایک ڈی آئی جی ہے، اضلاع اور سکیورٹی یونٹس کی سربراہی ایس ایس پی کرتے ہیں، اس کے علاوہ، انسداد دہشت گردی کا محکمہ، تفتیشی برانچ، اور خصوصی برانچ موجود ہے ان میں سے کچھ یونٹ براہ راست آئی جی کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ دیگر پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کے ذریعے اسے رپورٹ کرتے ہیں، اس وقت کراچی میں پولیس کے تین زون ایسٹ ، ویسٹ اور سائوتھ ہیں، جن کے 8ڈسٹرکٹ میں ایسٹ ، ملیر، کورنگی ، سائوتھ، کیماڑی، سٹی، ویسٹ اور سینٹرل شامل ہیں، جن کے اندر111پولیس سٹیشن اور50پولیس چوکیاں ہیں، کچھ تھانوں کو ایک ہی عمارت میں ضم کیا گیا ہے، اسی طرح ایس ڈی پی او ڈی ایس پی کی تعداد53، ایس پی کی تعداد 18 ، ایس ایس پی 8،3ڈی آئی جی اور ایک ایڈیشنل آئی جی ہے، کراچی پولیس میں تھانے کی سطح پر کمیونٹی پولیسنگ کا پہلے بھی تجربہ ہوچکا ہے اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ، اب اس نظام کے تحت کمیونٹی اور پولیس مل کر جرائم کے خاتمے کیلئے کام کرتے ہیں، لیکن اگر کمیونٹی پولیسنگ کا نظام میں مزید بہتری لائی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ عام شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں آجائے گا، اسے پولیس کے اعلیٰ افسران تک رسائی مل جائے گی، یوں صورت حال میں تبدیلی پیدا ہوجائے گی، اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا کراچی پولیس میں سب کچھ برا ہے؟ یقینا نہیں، اس حوالے کراچی کے موجودہ پولیس چیف خادم حسین رند سے ایک ملاقات میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو اب کراچی کا امن مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوتا، ایسا ہرگز نہیں، ہر سال کراچی پولیس کے سیکڑوں جوان اور افسر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں، یہ پولیس جوان اور افسر دیگر اداروں کی نسبت کم مراعات و وسائل میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، اگر کراچی پولیس کو وسائل میسر ہوں اور افرادی قوت دی جائے تو کراچی پولیس کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی پولیس کی طرح نتائج دے سکتی ہے۔ اچھے وسائل اور بہترین مراعات بد عنوانی کا راستہ بھی بند کر سکتی ہیں۔ کراچی پولیس کے پاس ابھی بھرپور وسائل نہیں اس کے باجود دیانت دار پولیس افسروں اور جوانوں کی مدد سے ہی محکمہ نتائج دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر سے سٹریٹ کرائم کا خاتمہ کرنا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، ہر طرح کے سٹریٹ کرائمز جن میں ڈکیتیاں، چوریاں، موبائل فون چھیننا اور گاڑیوں کی چوری سے پیشہ ورانہ طور پر نپٹا بھی جا رہا ہیں اور اس کیلئے روزانہ کی بنیاد پر موثر حکمت عملی کے تحت چور اچکوں کے خلاف ایک مکمل کریک ڈائون فوری طور پر شروع کر دیا گیا ہیں، جس میں کامیابی کے نمایاں نتائج سامنے آرہے ہے۔ ایڈیشنل آءی جی کراچی خادم حسین رند کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اور شہریوں میں اعتماد پیدا ہوگیا تو کئی مسائل علاقے ہی کی سطح پر احسن طریقے سے حل ہوجائیں گے یوں متعلقہ اداروں پر بھی بوجھ کم ہوگا۔ لیکن اس کیلئے ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کیلئے جو کمیٹیاں بنائی جائیں، ان کیلئے ایسے ارکان کا انتخاب کیا جائے جن پر کمیونٹی اعتماد کرے، عام شہری کمیٹی کے ارکان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ سکے، اور اسے یقین ہو کہ کمیٹی کسی سیاسی اور مذہبی دبائو کے بغیر غیر جانب دار ہو کر اقدام کرے گی اس کیلئے پڑھے لکھے باشعور معاملہ فہم شہریوں کا انتخاب ضروری ہے، کیونکہ کمیونٹی پولیسنگ پروگرام فقط اِسی صورت میں سودمند ثابت ہوسکتا ہے، جب اِسے کرپشن سے پاک رکھا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ پولیس کو فورس کی بجائے دیگر آزاد قوموں کی طرح پاکستان میں بھی خدمت گار ادارہ بنایا جائے۔ پولیس شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے ہوتی ہے۔ پولیس کا اولین فرض ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، جرائم کا خاتمہ کرے اور ان عناصر کو جو بدامنی کا سبب بنتے ہیں، کیفر کردار تک پہنچائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ محکمہ پولیس کسی بھی قوم اور معاشرے کی اصلاح و فلاح اور ترقی و بلندی کا ایک اہم ترین شعبہ تصور کیا جاتا ہے، اگر عوام اور پولیس کے درمیان خوف کے رشتے کو ختم کیا جائے اور عوام دوست پولیس رویے کو فروغ دیا جائے تو پولیس کو مجرم پکڑنے اور گواہی حاصل کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے، جس سے جرائم کے اعداد و شمار میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button