ColumnM Riaz Advocate

مولانا فضل الرحمان، انسانی حقوق اور پروپیگنڈا

محمد ریاض ایڈووکیٹ
بلا شرکت غیرے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ سوشل میڈیا طاقت کی بدولت اگر کسی کو چند گھڑیوں میں زیرو سے ہیرو بنایا جاسکتا ہے ۔ وہیں پر کسی فرد کو آسمان سے گرا کر تحت الثری تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو مات دی ہوئی ہے وہیں سوشل میڈیا من گھڑت خبروں کی آماجگاہ بھی بن چکا ہے۔ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ ہر شے کے مثبت و منفی پہلو بہرحال اپنا وجود رکھتے ہیں۔ شک و شبہ سے بالاتر ہوکر بات کی جائے تو پاکستان بھی سوشل میڈیا کے منفی اثرات یعنی فیک نیوز اور پروپیگنڈا سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاسی فرقہ پرستی تو چل ہی فیک نیوز پر رہی ہے۔ اسرائیل پر فلسطینی حریت پسند تنظیم حماس کے حملوں کے بعد جہاں دنیا بھر میں من گھڑت خبریں سج دھج کر پھیلائی جارہی ہیں۔ وہیں پر اسرائیل فلسطین معاملہ پر بھی پاکستان میں فیک نیوز اور دروغ گوئی اپنے جوبن پر نظر آتی ہے۔ تازہ ترین مثال جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے اسرائیل و فلسطین معاملہ پر دیئے گئے بیان پر ہونے والی دروغ گوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں پروپیگنڈا مشینری حرکت میں آتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مولانا فضل الرحمان کے سیاسی مخالفین نے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کر دیا؟ آئیے پہلے بیان کا جائزہ لیتے ہیں۔ ’’ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ فلسطینی بھائیوں سے اپیل ہے کہ انسانی حقوق کا احترام کریں‘‘۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر نظر آنے والے طوفان بدتمیزی پر ایسے محسوس ہورہا تھا کہ گویا اسرائیل و فلسطین کی لڑائی کے بعد مولانا فضل الرحمان کا بیان ہی دنیا کے دو بڑے مسائل ہیں۔ کسی نے مولانا کو اسرائیلی ایجنٹ بنا ڈالا تو کسی نے مولانا کو اسرائیل کا پاکستان میں سفیر تعینات کر دیا۔ پروپیگنڈا مشینری کے ہاتھوں مزید یرغمال ہونے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایپ ٹویٹر؍ ایکس پر مولانا کا تقریبا7منٹ دورانیے کا اصل اور مکمل ویڈیو بیان کیا تھا؟ جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ فلسطینی مجاہدین کا اسرائیل پر حملہ تاریخی کامیابی اور معرکہ ہے، جنہوں نے اپنے علاقے اسرائیلی غاصبانہ قبضے سے چھڑائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، دنیا سمجھ رہی تھی مسئلہ فلسطین مردہ ہو چکا ہے۔ تازہ واقعہ نے ثابت کیا کہ مسئلہ فلسطین مردہ نہیں ہوا بلکہ اس کی اہمیت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ فلسطینیوں کے موقف کو درست سمجھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی تسلسل کے ساتھ فلسطینیوں کے موقف کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے، ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقے نے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی ناکام کوشش کی۔ اس حملے نے اسرائیل کے دفاعی نظام اور ان کے گھمنڈ کو زمین بوس کر دیا ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ اسرائیل کوئی بڑی قوت نہیں بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے فلسطینیوں سے اسرائیلی شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل کرتے ہوئے توجیہہ پیش کی کہ آج ہمیں اس کے بدلے میں یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمان کس طرح انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ تو تھا مولانا فضل الرحمان کو مکمل بیان۔ مولانا کا مکمل بیان پڑھنے کے بعد قارئین خود فیصلہ کریں کہ مولانا نے کون سی بات غلط کہی ہے؟ اب آتے ہیں فلسطینیوں سے اسرائیلی شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے اور انسانی حقوق کی پاسداری کی اپیل والے بیان پر۔ مخالفین کی جانب سے یہ بھی اعتراض کیا جارہا ہے کہ جب اسرائیل کسی قسم کے انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کرتا تو فلسطینیوں کو ایسی تعلیمات کا درس کیوں دیا جارہا ہے؟۔ اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ ہمیں ہر حال میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہیے چاہے امن ہو یا پھر
حالت جنگ۔ دین اسلام حالت جنگ میں بھی دشمن کے بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور املاک کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ حالت جنگ کے موضوع پر سنن ابی دائود کی حدیث نمبر 2614کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مجاہدین کو رخصت کرتے وقت ) فرمایا: ’’ تم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جائو، اور بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹے لڑکوں کو ، اور نہ ہی عورتوں کو، اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ ( قرآن مجید میں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6) اللہ کریم کا ارشاد پاک ہے کہ:’’ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے‘‘۔ بحیثیت سیاسی ورکر مخالف سیاسی لیڈرشپ سے اختلاف رکھنا آپ کا آئینی و قانونی حق ہے مگر بحیثیت مسلمان ہمیں ہر حال میں سچ کے دامن کو پکڑ کر رکھنا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیی بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات ( تحقیق کئے بغیر) بیان کر دے‘‘۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ آپ مولانا فضل الرحمان سمیت تمام سیاسی لیڈرشپ کی سیاست سے لاکھ اختلاف کریں۔ تمام سیاسی لیڈرشپ کی کھل کر مخالفت کریں۔ ان کی سیاسی پالیسیوں، طور طریقوں پر جی بھر تنقید کے نشتر برسائیں۔ مگر خدارا جھوٹ کا سہارا لینا چھوڑ دیں۔ یو ٹیوب پر وی لاگ بنا کر لاکھوں کروڑوں روپیہ کمانے والے یو ٹیوبرز کی من گھڑت و دروغ گوئی کا حصہ مت بنیں۔ اللہ کریم ہم سب کو سچ بولنے اور سچ کا ساتھ دینے کی ہمیشہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button