Columnمحمد مبشر انوار

فلسطین کا مستقبل

محمد مبشر انوار( ریاض)
سچ تو یہ ہے کہ وہ قومیں جو اپنی آزاد حیثیت میں، اپنی آزادی کی قدر نہیں کرتی، اس آزادی کو قائم رکھنے کے لئے آفاقی اصولوں کی پیروی نہیں کرتی، احکامات الٰہی کی تعمیل نہیں کرتی بلکہ خود کو حدود و قیود سے ماورا سمجھتی ہیں، ان کی آزادی بتدریج ان سے چھین لی جاتی ہے۔ انہیں آزاد سے محکوم قوم بناکر انہیں آزادی حیسی نعمت کے لئے ترسایا جاتا ہے تاآنکہ اسی قوم میں سے ہی کوئی قد آور شخص سامنے لا کر ،قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے،قوم کو آزادی دلوا سکے، گو کہ ایسا کرنا اتنا آسان قطعی نہیں ہوتا۔ قوموں کو آزادی کبھی پلیٹ میں رکھی نہیں ملتی بلکہ آزادی کی خاطر ایک طویل جدوجہد کے ساتھ بے انتہاء قربانیاں دینا پڑتی ہیںتب کہیں قسمت مہربان ہوتی ہے اور کسی بھی قوم کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کے لئے ،اسرائیل کا خطہ عرب میں قیام سوہان روح سے قطعی کم نہیں تھا اور بتدریج انتہائی مختصر ترین وقت میں اسرائیل سے وابستہ مسلم ریاستوں کے بدترین خدشات نے حقیقت کا روپ لے لیا تھا،اسرائیل کے ضامنوں نے اسرائیلی غیر قانونی سرگرمیوں پر بظاہر اسرائیل پر تنقید کی مگر درپردہ ان کی شہ پر اسرائیل نے اپنی یلغار جاری رکھی۔ فلسطینیوں پر زندگی تنگ کی جاتی رہی، ان کی زمین جائیداد کو خردیا جاتا رہا، انہیں گھر سے بے گھر کیا جاتا رہا ،ان پر ظلم و ستم و بربریت جاری رکھی گئی لیکن اقوام عالم کے سامنے خود کو ایک اقلیت اور مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اپنی اس حیثیت کو پہلی عرب اسرائیل جنگ تک قائم رکھا گیا لیکن پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد، جب اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقوں پر بزور قبضہ کر لیا،کھل کر اپنی ریاست کو پھیلانا شروع کر دیا، گزشتہ صدی میں یہ واحد محاذ جنگ ہے کہ جہاں جارح مزاج قوم سے ’’ مہذب اقوام‘‘ مفتوحہ علاقوں کو واگزار کرانے میں ناکام رہی ہیں بلکہ مسلسل اس جارح قوم کی حمایت کی ہے۔ہر جارحیت ،بربریت ،ظلم و ستم اور لاقانونیت پر ’’ مہذب اقوام‘‘ نے قانون کی تشریح بدلنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی تا کہ اس لے پالک کی سبکی نہ ہو سکے اور مسلم ممالک اسے کوئی زک نہ پہنچا سکیں، جو بوجوہ ویسے بھی مسلم ممالک اسرائیل کو پہنچانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں عالمی سطح میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث یہ امکان پیدا ہو رہا تھا کہ عین ممکن ہے کہ عالمی دبائو کے اثر میں اسرائیل دو ریاستی فارمولے کو تسلیم کر لے اور فلسطین پر ہونے پر مظالم کا خاتمہ ممکن ہو جائے، فلسطینی بھی سکون کا سانس لے سکیں اور اس خطے میں بھی امن و امان کے ساتھ ترقی کے دروازے کھل جائیں لیکن اس کے برعکس حماس و حزب اللہ نے غزہ کی جانب سے اسرائیل پر حملے کر دئیے ہیں اور فوری طور پر اچھی کامیابی بھی حاصل کر لی ۔ حماس و حزب اللہ کے حملوں پر اس وقت ایک طرف دو سوال زیر گردش ہیں کہ آیا حملوں کا یہ وقت صحیح ہے یا غلط تو دوسری طرف یہ گمان بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ حملے واقعتا حماس و حزب اللہ کی اپنی منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے ہیں یا ا ن کے پس پردہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی سازش موجود ہے کہ جو اسرائیل کو موجودہ دباؤ سے نکالنے میں کارآمد ہو سکتی ہے؟ جارحیت یا جنگ کا آخری فیصلہ عموما مذاکرات کی میز پر ہوتا ہے ،بالخصوص اس وقت جب ایک فریق اپنی طاقت کا ٹھیک اندازہ لگانے سے قاصر ہو،جنگ میں کودنا حماقت کہلاتا ہے ،اور اسے بالعموم آ بیل مجھے مار ہی کہا جاتا ہے۔ حماس اور حزب اللہ کا اسرائیل کے خلاف طبل جنگ بجانا ،ابتدائی طور پر اسرائیل کے فوجیوں و شہریوں کو حراست میں لے لینا ،غزاوی مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے یقینا کافی ہے اور بعینہ ماضی کی طرح حماس و حزب اللہ اسرائیل سے قیدیوں کے تبادلے میں اپنے بہت سے اسیران کو رہا بھی کروا لیں گے،لیکن اس کے جواب میں جو اسرائیل اس وقت کر رہا ہے،اس کی منصوبہ بندی بھی مجاہدین نے کر رکھی تھی یا نہیں؟تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ کے لئے تما م تر اشیائے ضروریہ زندگی کو بند کر دیا ہے، جس میں خوراک، بجلی، پانی ادویات وغیرہ شامل ہیں، علاوہ ازیں اسرائیل جس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے، اس میں وہ جنگی اصولوں کو ہمیشہ فراموش کرتا آیا ہے اور شہری آبادی کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں کو بھی نشانہ بناتا رہا ہے، یہی سب کچھ وہ آ ج بھی کرے گا۔ فلسطینی مجاہدوں کے عزم، ہمت و حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں لیکن اگر ما بعد حملہ نتائج برعکس ہوں تو ایسی ناقص منصوبہ بندی پرتنقید کرنا نہ صرف ضروری سمجھتا ہوں بلکہ اس کی کسی بھی صورت ستائش نہیں کی جا سکتی کہ اس کے نتیجہ میں ایک طرف فلسطینی اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ دوست ممالک جو اس وقت مشرق وسطی میں پائیدار امن کے حل کی خاطر دو ریاستی فارمولہ کی وکالت کر رہے ہیں،ان کے لئے مشکلات بھی کھڑی ہو سکتی ہیں۔
تاہم مجھے اس کا بھی یقین ہے کہ دوست ممالک اس ایک اقدام کو دو ریاستی فارمولے کے حق میں بھی بدل سکتی ہیں کہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ خطے کے پائیدار امن کے لئے یہاں دوریاستی فارمولے پر عمل درآمد کروایا جائے۔ یقینی طور پرعلاقوں کی تقسیم کے حوالے سے جاری پیش رفت کے متاثر ہونے کا اندیشہ موجود رہے گا لیکن پھر وہی بات کہ حماس اور حزب اللہ کے اس اقدام کے بعد ،دوست ممالک کے پاس یہ جواز بھی رہے گا کہ کسی بھی قسم کی غیر منصفانہ تقسیم سے معاملہ حتمی طور پر نہیں سلجھے گا بلکہ راکھ میں موجود چنگاریاں ،اس کو کسی بھی وقت شعلوں میں بدل سکتی ہیں لہذا اس کا منصفانہ حل ہی وہ واحد راستہ ہے جو خطے میں مستقل امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔یوں بظاہر وہ ہمدرد و خیر خواہ،جن کی نظر میں ،حماس و حزب اللہ کا موجودہ اقدام امریکی شہ پر لیا گیا ہے یا جن کے نزدیک ہر ایسا قدم،جو مخصوص حالات میں مسلمانوں کے خلاف جا سکتا ہے،اس کے پس پردہ امریکی سوچ،امریکی تحفظات یا بہرطور کسی نہ کسی حوالے سے امریکہ موجود ہوتا ہے،کو خیال رکھنا چاہئے کہ یقینا امریکہ بہت سے ملکوں میں اپنی حیثیت کھو رہا ہے اور مشرق وسطی میں بھی اسے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے،لہذا یہ قدم اس کے ایماء پر اٹھایا گیا ہوگا،قرین از قیاس نہیں ہو سکتا۔کیا اس اقدام کے بعد امریکہ مشرق وسطی میں اپنی حیثیت قائم رکھ پائے گا؟اہم سوال تو یہی ہے ،جس کا جواب میرے نزدیک ’’ نفی ‘‘میں ہے کہ امریکہ نے اس ایک چال کے بدلے یقینی طور پر بہت کچھ سوچ رکھا ہو گا کہ کس طرح مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ملک سے ابراہم معاہدے کو تسلیم کروایا جانا ہے اور کیسے اسرائیل کو تسلیم کرایا جاناہے،کیسے روس و چین کے مقابلے میں اپنی گرتی ہوئی حیثیت کو سنبھالا دینا ہے لیکن صد افسوس کہ جب غیر موافق حالات میں چہرے بے نقاب ہو نے شروع ہوتے ہیں ،تو ایسی چالیں الٹی منہ پر پڑتی دکھائی دیتی ہیں،یہی کچھ امریکہ کے ساتھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ابراہم معاہدے پر عملدرآمد کے لئے جو کچھ کیا جا رہا ہے ،وہ کسی بھی صورت مشرق وسطی کے اہم ترین مسلم ملک کے نوجوان حکمران کو متاثر نہیں کر رہا بلکہ اس نوجوان قیادت کے اپنے اہداف ہیں،اپنا وژن ہے،جس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنی سیاسی بساط کو ترتیب دئیے ہوئے ہے اور اسی پر عمل پیرا ہے۔ اس وژن کی تکمیل میں اگر کہیں اسرائیل کا تعاون درکار ہے تو ایک کہنہ مشق سفارت کار کے مطابق اسرائیل کو ایک حد تک،بغیر تسلیم کئے ہی،تعلقات کار بھی نظر آتے ہیں، جو اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ نوجوان قیادت معاملات کو اپنے ملک کی ترجیحات و مفادات کے عین مطابق جب، جہاں اور جیسے چاہے بروئے کار لانے پر قادر نظر آتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا کہ حماس و حزب اللہ کا موجودہ اقدام فلسطینی ریاست کے مقاصد میں رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے، تصویر کا ایک رخ ہو سکتا ہے جب کہ میری نظر میں اس اقدام سے خطے میں معاملات کو جلد از جلد دو ریاستی فارمولے پر قائل کرنے میں مدد ملتی نظر آ رہی ہے، کہ یہی فلسطین کا مستقبل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button