ژوب آپریشن: 5دہشت گرد ہلاک، میجر و حوالدار شہید

وطن عزیز میں کچھ سال امن و امان کی صورت حال بہتر رہی، لیکن اب پچھلے کچھ مہینوں سے ملک میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھاتا دِکھائی دے رہا ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختون خوا صوبوں میں دہشت گردی تسلسل کے ساتھ تخریب کاریوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز ان کے خاص نشانے پر ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی چیک پوسٹوں پر حملہ آور ہوا جاتا ہے، ان مذموم کارروائیوں میں کئی جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ یہ سپوت قابلِ فخر ہیں، جنہوں نے ملک و قوم کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، یہ اور ان کے اہل خانہ ہر لحاظ سے قابل عزت و احترام ہیں، قوم ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے پھر سے دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے مختلف آپریشنز شروع کیے ہوئے ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں نصیب ہورہی ہیں، دہشت گردوں کو چُن چُن کر مارا جارہا، گرفتار کیا جارہا ہے، ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جارہا ہے، ان کے زیر تسلط علاقوں کو کلیئر کرایا جارہا ہے، سیکیورٹی فورسز پوری تندہی سے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے مشن پر گامزن ہیں، یہ کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں تو جلد ہی ملک سے اس عفریت کا پھر سے صفایا ہوجائے گا۔ گزشتہ روز بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔سیکیورٹی فورسز کی بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے سمبازہ میں کارروائی کے دوران 5دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں میجر اور حوالدار شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے 8اور 9اکتوبر کی درمیانی شب دہشت گردوں کی موجودگی سے متعلق انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر آپریشن کیا۔ شہید ہونے والوں میں میجر علی رضا اور حوالدار نثار احمد شامل ہیں۔ ترجمان آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنے بہادر جوانوں کی مقروض اور ان پر فخر کرتی ہیں، مادر وطن کے لیے بہادری کا مظاہرہ اور قربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بہادر جوانوں کی لازوال قربانیاں ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کو مزید تقویت دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہتھالہ تھانے پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک اہلکار جاں بحق اور 2زخمی ہوگئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں اور دستی بموں سے حملہ کیا، جس میں 3جوان حنیف، سعید ممتاز اور وکیل زادہ شدید زخمی ہوگئے، جنہیں فوری طور پر ڈسٹرکٹ اسپتال ڈیرہ منتقل کیا گیا۔ گزشتہ صبح ایک اہلکار دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ دہشت گردوں کے حملے میں تھانے کا مین گیٹ تباہ ہوگیا جب کہ کافی دیر تک دو طرفہ فائرنگ کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ وہ تسلسل کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جلد ان کو بدترین انجام سے گزرنا پڑے گا۔ سیکیورٹی فورسز ان کے قلع قمع کے لیے مصروفِ عمل ہیں، ان کے ٹھکانوں کا پتا لگایا جارہا ہے اور وہاں گھس کر انہیں جہنم واصل کیا جارہا ہے۔ دہشت گردوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پہلے بھی اُنہیں نانی یاد کراچکی ہیں، وطن عزیز پہلے بھی دہشت گردوں کی کمر توڑ چکا ہے۔ ان کی کمین گاہوں کو برباد کرچکا ہے۔ دہشت گردوں کو بڑی تعداد میں مار چکا ہے، گرفتار کرچکا ہے، جو بچ گئے تھے، ان کو یہاں سے دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کرچکا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنے فرائض بخوبی سرانجام دینا جانتی ہیں۔ پاکستان کی افواج کا شمار دُنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ اُن کی پیشہ ورانہ قابلیت کا سارا زمانہ معترف ہے۔ ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے عزم پر وہ گامزن ہیں اور جلد اس سے ملک و قوم کو چھٹکارا دلائیں گی۔ ملک عزیز سانحہ نائن الیون کے بعد 14؍15 سال تک دہشت گردی کی بدترین کارروائیوں کی زد میں رہا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا، جب ملک کے کسی گوشے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہوتا ہو، درجنوں لوگ اس میں جاں بحق ہوتے تھے، عوام النّاس میں بدترین خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ صحیح سلامت گھروں کو لوٹ سکیں گے بھی یا نہیں۔ ہر سُو خوف و دہشت راج کرتی تھی۔ پھر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ آپریشن ضرب عضب اور پھر ردُالفساد کے ذریعے ان کی کمر توڑی گئی، ان کو ان کی کمین گاہوں میں گھس کر جہنم واصل کیا گیا، کتنے ہی بڑی تعداد میں شرپسند گرفتار ہوئے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے پھر سے دہشت گردی کو قابو کرنا کوئی مشکل ہدف نہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کو کچلنے کے لیے پوری تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ ہمارے بہادر جوان ملک و قوم کی دعائوں کے ساتھ ان عناصر کے خلاف آگے بڑھ رہے ہیں اور کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ جلد ہی وطن عزیز ان کے ناپاک وجود سے پاک ہوگا اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی۔ ملک سے ویسے بھی پُرانی اور راسخ ہونے والی خرابیوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کرلیا گیا ہے اور ان خرابیوں کے قلع قمع کے ساتھ جلد وطن عزیز سے دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
ملک میں کھاد کی قلت کا اندیشہ
پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کی کُل ملکی مجموعی آمدن کا 20فیصد حصّہ زراعت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ملک کی زرعی پیداوار میں کمی در کمی آتی جارہی ہے۔ سالہا سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ کسانوں کی حالتِ زار بھی بہتر نہیں۔ وہ خوش حالی سے کوسوں دُور ہیں۔ کاشت کار ہر برس نئی فصل کی کاشت کے لیے اچھے دن کی امید میں قرض حاصل کرتے ہیں۔ بیچ، کھاد اور دیگر فصل کی کاشت کے لیے سامان مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ فصل کاشت کرتے ہیں۔ اُس کے لیے شب و روز محنت کرتے ہیں۔ جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے تو مارکیٹ میں انہیں اُن کی شب و روز کی ریاضت کا معقول محنتانہ نہیں ملتا۔ وہ شدید مایوسی کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں کھاد کی اسمگلنگ، بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ رہی ہے۔ اب پچھلے مہینے سے ڈالر، سونا، گندم، چینی اور کھاد کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔ ان کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے، جس میں وافر اشیاء برآمد کی جارہی ہیں، ملزمان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں، برآمد کردہ اشیاء کی مالیت اربوں روپے بتائی جاتی ہے جب کہ سیکڑوں ملزمان قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔ ان کارروائیوں کے بعد صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا ہے۔ ڈالر کے نرخ میں واضح کمی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، اسی طرح سونے کے دام بھی گر رہے ہیں، آٹا، چینی، کھاد کے دام بھی نیچے آنے کی توقع کی جارہی ہے، تاہم اب بھی کھاد کے حوالے سے اچھی اطلاعات سامنے نہیں آرہیں اور اس کی قلت کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں یوریا کھاد کی قلت کے خدشات کے پیش نظر 5لاکھ میٹرک ٹن تک کھاد درآمد کرنے کی تجویز سامنے آگئی۔ ربیع سیزن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمد کی منظوری ای سی سی سے لی جائے گی، تاہم اگر بروقت انتظام نہ کیا گیا تو دسمبر سے کھاد کی کمی کا خدشہ ہے۔ ابتدائی طور پر دو لاکھ میٹرک ٹن کھاد درآمد کیے جانے کا امکان ہے۔ اس سے مقامی ضرورت پوری نہ ہوئی تو مزید 3لاکھ میٹرک ٹن کھاد بیرونِ ملک سے منگوائی جاسکتی ہے۔ درآمدی کھاد سے دسمبر تا جنوری گندم کی فصل کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ ذرائع صنعت و پیداوار کے مطابق کھاد درآمد نہ کی گئی تو رواں سیزن قلت کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ کھاد کے مقامی کارخانوں کو بھی مارچ 2024تک بلاتعطل گیس فراہمی سے بھرپور پیداوار لی جائے گی۔ ضرورت کے مطابق کھاد فی الفور درآمد کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ آئندہ کے لیے ایسے انتظامات کیے جائیں کہ کھاد کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی نہ ہوسکے۔ بلیک مارکیٹنگ کے قبیح دھندے پر قدغن لگائی جائے، تاکہ ملک میں کھاد کی قلت جنم نہ لے سکے۔