Column

آشیانہ شاخ نازک پر ہی ہوگا

تحریر : سیدہ عنبرین
ملک میں عام انتخابات کا باجا نہیں بجا، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک ہلکی پیپنی بجائی ہے، جتنی اس کی آواز تھی اتنی سی اُس نے ہل چل مچائی ہے، زمینی حقائق پر نظر ڈالنے سے صورتحال کچھ واضح ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کے ملک پہنچنے کی تاریخ دی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے وہ صحت مند ہیں، ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد تسلی بخش ہے، احتیاطا کچھ پلیٹ لیٹس کسی سائیڈ اکائونٹ میں بھی موجود ہونگے، جہاں سے بوقت ضرورت نکال کر کم ہونے کی صورت میں پورے کرلئے جائینگے، مزید ضرورت پڑی تو ذاتی معالج موجود ہونگے جو کسی بھی شعبے کے ایکسپرٹ نہیں ہیں مگر پھر بھی کمال کے ایکسپرٹ ہیں، کوئی ہنگامی صورت پیدا ہوئی تو شیخ رشید اور ڈاکٹر یاسمین راشد موجود ہیں، نواز شریف صاحب کو ڈیل کے تحت ملک سے باہر بھیجنا مقصود تھا تو ان دونوں شخصیات نے ملکر پلیٹ لیٹس کم کرائے تھے۔ اب ضرورت کے تحت وہ انہیں بڑھانے پر بھی قادر ہونگے۔ انہوں نے اپنے اعمال کا جواب عوام کو تو دینا نہیں، ان کے معبود پتھر کے صنم ہیں، جناب نواز شریف بغیر کسی علاج معالجے کے ہی صحت یاب ہوگئے ہیں۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے، اب وہ امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں، مڈل ایسٹ کے چکر بھی لگا چکے ہیں لیکن وطن واپس آنے سے پہلے سعودی عرب اور یو اے ای جانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں پر شاہی خاندان کی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کی تصویروں سے اس تاثر کو گہرا کیا جاسکے کہ پورا عالم عرب ان کے ساتھ ہے اور پانچویں مرتبہ اقتدار ملنے پر قوم کی تقدیر بدلنے کے معاملے پر ان کے ساتھ ہوگا۔ انہیں جہاز سے اتر کر گھر جانے، آرام کرنے، اگلے روز ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کی سہولت بھی حاصل ہوگی، پھر وہ قانون کے دروازے پر حاضری دیں گے، جہاں انہیں ضمانت کی سہولت دستیاب ہوگی، کوئی اور مجرم ہوتا تو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں باندھ کر جیل پہنچایا جاتا، میاں نواز شریف عام نہیں، خاص ہیں، پس اب ان سے خاص سلوک کیا جائیگا۔ جناب شہباز شریف پاکستان پہنچے ہی تھے کہ لندن فوراً پہنچنے کا بلاوا آگیا، وہ جوگی والا پھیرا ڈال کر واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ شکر خدا کا انہیں اس نازک موقع پر کمر میں درد شروع نہیں ہوگیا، وہ حسن، حسین نواز اور مریم صفدر کے چاچو تو تھے ہی، اب وہ قوم کے چاچو ہیں، وہ نہ ہوتے تو قوم کس کو چاچو کہتی۔ حمزہ شہباز بھی ملک میں موجود ہیں، ان کی چند برس قبل پیدا ہونے والی بیٹی کی طبیعت بھی ٹھیک
ہے، ان کی اصلی والی بیگم بھی خوش و خرم ہیں، کسی ایک کی طبیعت خدانخواستہ اچھی نہ ہوتی تو انہیں کسی بھی وقت اچانک لندن روانہ ہونا ضروری ہوجاتا، سب سے بڑھ کر یہ کہ جناب نواز شریف کی امیدوں کا مرکز مریم صفدر بھی پاکستان میں ہیں۔ ان کے بقول ان کے گلے کی ایک چھوٹی سی سرجری ہونا تھی، وہ ہوچکی ہے اور فوری طور پر کسی بڑی سرجری کی ضرورت نہیں، منہ میں ہر وقت الٹی سیدھی چیزیں
ڈالنے والوں کو منہ اور گلے کا کینسر ہوجاتا ہے، جیسے تمباکو، چھالیہ، زیادہ چونا لگا پان وغیرہ لیکن مریم ایسی کسی چیز کا استعمال نہیں کرتیں، وہ باتیں کرتے ہوئے نظریں اٹھا کر، کبھی نظریں جھکا کر مسکراتی ہیں تو ان کے سفید دانت یوں صاف شفاف نظر آتے ہیں جیسے نقلی ہوں، جانور انسانوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، اب انسانوں نے جانوروں سے کئی باتیں سیکھ لی ہیں۔ جیسے آنکھیں پھیرنا اور کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور، اب تو بغل میں چھری رکھنا اور اندھیرے میں وار کرنا جدید فیشن ہے۔ باپ پارٹی کے اہم ارکان نگران حکومت میں لائے گئے ہیں، ان کے سربراہ نگرانی سے زیادہ کسی اور مشن پر مصروف ہیں، کوششیں جاری ہیں کہ میاں نواز شریف وطن واپس پہنچیں۔ باپ کے رہنما ان سے مل کر ن لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیں، یوں وہ باپ کے رتبے سے نیچے آکر برخوردار کے منصب پر فائز ہو جائینگے، اس تنزلی میں انہیں کیا ملے گا یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ عین وقت پر اگر انہوں نے باپ کی حیثیت میں رہنے کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی انہیں کوئی خاص نقصان نہ ہوگا، سود و زیاں کے فیصلے تو بہت پہلے ہوچکے ہیں، اب تو بس چند روز تھیٹر ہوگا، لوگ دور دور سے آئینگے اور دیکھیں گے ایک اندھیرے کمرے میں سیاہ چادر اوڑھے ایک لڑکی کے چہرے والی کوئی مخلوق لیٹی ہے، جس کا دھڑ لومڑی کا ہے، وہ جم غفیر اکٹھا ہونے پر لیٹے لیٹے اپنے ہاتھ پائوں ہلاتی ہے، پبلک کے پرزور اصرار پر سوالوں کے مختصر جواب دیتی ہے اور آخر میں جب
اس کا نام پوچھا جائے تو مسکرا کے کہتی ہے میرا نام جمہوریت ہے، میرے پاپا کا تعلق برطانیہ سے ہے، میری مما پاکستانی ہیں، میں اپنے پاپا اور مما کی دن رات کی محنتوں کا ثمر اور اہل پاکستان کا مقصد ہوں، اس کے فقرے ختم ہوتے ہیں تو ایک شخص ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لئے گھنٹی بجاتا آتا ہے، اس کی گھنٹی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ آج کا تماشا ختم ہوا، چودھری پرویز الٰہی جیل اور ضمانتوں کے گرداب میں ہیں، ان کی کنگز پارٹی کی اب ضرورت نہیں رہی، سینگ کٹوا کر بچھڑوں میں کئی سالوں سے گھسے ہوئے گیٹ نمبر 4کے سرکاری سانڈ کا وقت بھی پورا ہوا، اسے کہا جارہا ہے کہ گھر بیٹھو اور اللہ اللہ کرو لیکن وہ کہتا ہے اللہ کے نام پر ایک باری اور دے دو، اس وقت گھر بیٹھ گیا تو مفت میں مارا جائونگا، چھٹتی نہیں ہے ظالم منہ کو لگی ہوئی۔ پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی صاحب میں سیاسی میراتھن جاری ہے، ابھی گرائونڈ کا پہلا چکر ختم ہوا ہے، دونوں تازہ دم ہیں، چوتھے اور آخری چکر میں پتہ چلے گا کون کتنے پانی میں ہے، جماعت اسلامی جمود توڑنے میں تو کامیاب ہوگئی ہے، اسے نئے چہروں کی تلاش ہے لیکن کچھ عجب نہیں کہ وہ اپنے ایک سابق امیر کے فلسفے کے مطابق فیصلہ کن لمحات میں چھوٹی برائی اور بڑی برائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے اور چھوٹی نیکی و بڑی نیکی منہ دیکھتی رہ جائیں، آج وہ جن کے خلاف دھواں دار مہم چلارہے ہیں، ماضی میں ان کے ہی حلیف رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جناب آصف علی زرداری نے پہلے میں بلاول بھٹو کو میدان میں اتارا ہے آخری معرکے میں خود سامنے آئیں گے، وہ پنجاب میں اور نواز شریف سندھ میں اتنا ہی کردار حاصل کر پائیں گے جتنا فلم میں کسی مہمان اداکار کا ہوتا ہے، زرداری صاحب ایم کیو ایم، تحریک انصاف، پگاڑا گروپ، جبکہ نواز شریف ق لیگ، باپ، جمعیت اہل حدیث، شاہ محمود اور پرویز خٹک گروپ کی طرف جھکائو رکھتے ہیں، ان کی کوشش ہوگی کہ یہ دونوں گروپ اکٹھے ہوجائیں، مولانا فضل الرحمان تیل دیکھیں گے اور تیل کی دھار، جبکہ تحریک لبیک اور آزاد امیدوار فیصلہ کن کردار ادا کریں گے، کیرم کی گیم میں آخری شاٹ کے رائونڈ پر کئی گوٹیاں پاکٹ ہوجاتی ہیں، سیاست کا کھیل بھی کچھ ایسا ہی ہے جیتنے والا ہار جاتا ہے اور ہارتا ہارتا جیت جاتا ہے، آشیانہ شاخ نازک پر ہی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button