ColumnRoshan Lal

سپریم کورٹ میں چہروں کی تبدیلی

روشن لعل
زیر تحریر کالم کی اشاعت تک، سابق ہو چکے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جگہ قاضی فائز عیسیٰ نئے چیف جسٹس کی حیثیت سے عہدہ سنبھال چکے ہونگے۔ پوری دنیا میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اعلی ترین عہدوں پر فائز چہروں کی تبدیلی کے موقع پر آنے اور جانے والے لوگ اکثر کچھ ایسی باتیں کر جاتے ہیں جنہیں ان کے تجربوں کا نچوڑ سمجھ کر مستقبل میں اقوال زریں کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ سابق ہو چکے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جب چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالاہو گا اس وقت یقیناً انہوں نی بھی اپنے عہدے کے تقاضوں ، انصاف اور قانون کی اہمیت اور اسی قسم کی کچھ دوسری باتیں کی ہونگی ۔ اسی طرح نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ضرور ویسی ہی باتیں کریں گے جو قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان بننے والے لوگ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے موقع پر کرتے رہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر چہروں کی تبدیلی کے موقع پر، نہ جانے کیوں، نئے اور سابق ہوچکے چیف صاحبان کی باتیں سننے ، ان پر غور کرنے اور انہیں یہاں بیان کرنے کو دل نہیں کر رہا۔ شاید اس کی وجہ وہ ناقابل بیان ، حشر ہے، جو اکثر سابق چیف جسٹس صاحبان اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کا کرتے رہے ۔ عجیب بات ہے کہ کسی چیف جسٹس کی کہی باتوں کی بجائے یہاں ان باتوں کا ذکر کرنے کو دل کر رہا ہے جو سوشل میڈیا پر اپنی لغوگوئی کی وجہ سے مشہور ہونے والے کانسٹیبل شاہد جٹ سے منسوب ہیں۔ کانسٹیبل شاہد جٹ سے منسوب ایک نیا اور مختلف بیان ان دنوں سوشل میڈیا پر کثرت سے گردش کر رہا ہے۔ اس مبینہ، بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کا اخلاق ہے لہذا ہمیشہ صبر و تحمل اور شائستگی سے بات کریں‘‘۔ گوکہ کانسٹیبل شاہد جٹ سے منسوب نیا بیان بلا شبہ بہت صائب ہے مگر جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کی زبان سے اپنے اعلیٰ افسران کے لیے کی گئی تبرا بازی سن رکھی ہے وہ اس سے منسوب صائب بیان کو کسی طرح بھی اس کے دل کی آواز نہیں سمجھ سکیں گے ۔ افسوس کہ یہ بات صرف کانسٹیبل شاہد جٹ تک محدود نہیں ہے، یہاں تو یہ حال ہے کہ سابق ہو چکے اکثر چیف جسٹس صاحبان بھی باتیں تو بہت صائب کرتے رہے مگر ان کے پیشہ ورانہ کردار میں کہیں بھی ان کی کہی ہوئی باتوں کی جھلک دیکھنے کو نہ ملی۔ افسوس صد افسوس کہ جن لوگوں کی ذات، انصاف کی طے شدہ تعریفوں کا پرتو ہونی چاہیے تھی ان کی صفات میں صرف ایسی باتیں نظر آئیں کہ انہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد اچھے اور اعلیٰ ترین منصف کو طور یا رکھنے کی بجائے عجیب و غریب القبات سے نوازا گیا۔ انہیں جن القابات سے انہیں نوازا گیا ان کا ذکر کرنے کی بجائے زیادہ بہتر ہے کہ یہاں یہ بیان کر دیا جائے کہ انصاف سے کیا مراد ہے اور انصاف کی فراہمی پر مامور کسی منصف کا کردار کیسا ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ اس امر کو انصاف نہیں مانا جاسکتا، جو بلاشبہ، درست، شفاف ، موزوں ، استحقاق کے مطابق اور غیر امتیازی نہ ہو۔ انصاف کی طلب اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی فرد یا ادارے کا حق سلب کرتے ہوئے اسے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد انصاف کی فراہمی ا س وقت ممکن ہوتی ہے جب طے شدہ قوانین کے مطابق نشانہ بننے والے فرد یا ادارے کی داد رسی ہو۔ یہ تمام عمل اس بات سے مشروط ہوتا ہے کہ مدعا علیہان یا ملزمان پر ڈالا جانے والا تاوان ، انہیں دی جانے والی سزا یا بریت کا فیصلہ بلا تعصب، بلاامتیاز اور طے شدہ قوانین کے عین مطابق ہو۔
بلا تعصب، بلا امتیاز اور طے شدہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے جج صاحبان کے لیے یہ ضابطہ اخلاق رکھا گیا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی اور اپنی دیانتداری کو ہمیشہ مقدم رکھیں۔ تمام ججوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تسلیم شدہ، ناشائستہ اور نامناسب رویوں سے نہ صرف خود گریز کریں بلکہ اگر دیگر جج صاحبان ایسے رویوں کے حامل ہوں تو ہر صورت میں ان کی مجالس اور صحبت سے دور رہیں ۔ ہر جج کا منصبی فریضہ ہے کہ وہ اپنا کام انتہائی غیر جانبداری ، محنت اور انہماک کے ساتھ کرے۔ ایک جج کا طرز عمل ایسا ہونا چاہیے کہ عدالتی ، نیم عدالتی اور غیر عدالتی افعال کے حوالے سے دیگر ججوں کے ساتھ اس کا اختلاف رائے چاہے جس حد تک بھی ہو مگر اس اختلاف رائے میں کسی ذاتی مفاد کی وجہ سے تضاد یا محاذ آرائی کا کوئی پہلو نظر نہ آئے۔ ہر جج کو غیر جانبدار رہتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں سے دور رہنا چاہیے اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر جج ہر صورت میں قانونی اخلاقیات کا تابع نظر آئے۔
ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے عدلیہ اور نظام انصاف میں ججوں کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی کسی عمارت میں ستونوں کی ہوتی ہے۔ ججوں کی اس حیثیت کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگ ان سے شفاف ترین طرز عمل کی توقع رکھتے ہیں۔ اس طرح کی توقعات کی وجہ سے عدالتی امور سر انجام دینے والے ہر جج کے لیے تصور کیا جاتا ہے کہ اس کا کردار معاشرے کے لیے رول ماڈل جیسا ہو۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہر جج کو عدل کے ایوانوں میں دانشمندی سے بیانات سننا، سمجھداری سے ان پر غور کرنا اور پھر غیر جانبدار رہتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ جج ایک ایسا پبلک آفیسر ہے، جس سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ قانونی نکات سننے اور ان کا تعین کرنے کے بعد ، انصاف کی فراہمی کے لیے قائم کی گئی عدالتوں میں فریقین کے باہمی تنازعات کو اس طرح طے کرے کہ قانون کی حکمرانی کا احساس اجاگر ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا تصور نہ ابھرے۔ جج وہ شخص ہوتا ہے جس کی ذات کو عدالت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس حیثیت میں جج چاہے اکیلا کام کر رہا ہو یا کسی پینل کا حصہ بن کر اپنے فرائض ادا کرے ، ہر صورت میں اس کے پیش نظر یہ ہونا چاہیے کہ اس کا کوئی بھی عمل کسی کو خوش یا ناراض کرنے کے لیے نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہوگا۔ جس جج نے بھی ریاست میں قانون کی حکمرانی کے لے کام کیا ہوگا، کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسے منہ چھپا کر زندگی گزارنی پڑے۔
افسوس کہ یہاں نہ صرف عام ججوں بلکہ ایسے چیف جسٹس صاحبان کو بھی اپنے غیر منصفانہ کردار کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد منہ چھپا کر زندگی گزارنا پڑتی ہے جنہوں نے اپنے عہدے کو کسی منصف کی بجائے شہنشاہ کی طرح کی استعمال کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ریٹائرمنٹ کے بعد جو چہرہ تبدیل ہوا ہے اس کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اچھے منصف کی بجائے ان الفاظ میں زیادہ یاد کیا جائے گا کہ وہ دھڑے کا پکا ثابت ہوا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئے چہروں کے لیے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دھڑے بازی سے مبرا ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button