Editorial

پھر پٹرول بم، خدارا غریبوں پر رحم کیا جائے

غریبوں پر پھر پٹرول بم برسادیا گیا۔ پہلے ہی غریب عوام پر پچھلے 5، 6سال سے مسلط عذاب میں کمی کے بجائے شدت آتی جارہی ہے۔ ہر نیا آنے والا دن انتہائی کٹھن اور مشکل ثابت ہورہا ہے۔ مہنگائی کے سلسلے دراز ہیں اور ان کے ختم ہونے کے دُور دُور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ہر شے کے دام مائونٹ ایورسٹ سر کرتے نظر آتے ہیں۔ غریبوں کے لیے صرف اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ترین امر ہوگیا ہے۔ بجلی، گیس بلز اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں، جن کی ادائیگی خود کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتی۔ آٹا، چینی، دودھ، دہی، چاول، چائے کی پتی، تیل، گھی، سبزی، گوشت، پھل، سبھی کے دام تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات) کے دام بھی آسمانوں کو چھورہے ہیں۔ پچھلے دنوں بجلی کے بھاری بھر کم بلوں پر پورے ملک میں شدید احتجاج دیکھنے میں آئے۔ بھرپور احتجاجوں کے باوجود ریلیف کی کوئی سبیل نہ ہوسکی۔ ہر جانب گرانی کے جھکڑ چل رہے ہیں جو غریبوں کے آشیانوں کو تہہ و بالا کر رہے ہیں۔ روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار ہوکر رہ گیا ہے۔ پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے غریبوں کو کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، تب جاکر دو وقت کی روٹی بہ مشکل میسر آپاتی ہے۔ 2018سے شروع ہونے والا گرانی کا سلسلہ خوف ناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس سے قبل کی ملکی تاریخ میں کبھی مہنگائی میں اتنی شدت دیکھنے میں نہیں آئی، جتنے پچھلے، 5ساڑھے 5برسوں میں نظر آئی ہے۔ زندگی پہلے اتنی مشکل کبھی نہ تھی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ آئے روز غریبوں کی زندگی کو مزید مصائب میں اُلجھایا جارہا ہے۔ کبھی بجلی بے پناہ مہنگی کردی جاتی ہے اور کبھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ہول ناک حد تک بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کی پاسداری کے نام پر غریبوں کا بھرکس نکالا جارہا ہے۔ اُن کے لیے ریلیف کا سلسلہ کہیں بھی ڈھونڈے سے دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی منڈی میں تیل نرخوں میں اضافے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، اس لیے اس بار مہینے کے وسط میں غریب عوام دعاگو تھے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم اضافہ ہو، لیکن نگراں حکومت نے اُن کے ارمانوں پر اوس گراتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ریکارڈ بڑھوتری کر ڈالی۔ پٹرولیم 26روپے سے اور ڈیزل 17روپے سے زائد مہنگا کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نگراں حکومت نے ایک بار پھر غریب عوام پر پٹرول بم برسادیا، پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26روپے سے زائد اضافہ کردیا گیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق آئندہ پندرہ روز کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے، جس کا اطلاق رات بارہ بجے سے 30ستمبر تک ہوگا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26روپے دو پیسے جب کہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.34روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ حالیہ اضافے کے بعد فی لیٹر پٹرول کی قیمت 331 روپے 38پیسے جبکہ فی لیٹر ڈیزل کی قیمت 329روپے 18پیسے تک پہنچ گئی۔ دوسری جانب لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ نگراں حکومت کے ایک ماہ میں پٹرول 58روپے 43پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل 55روپے 78پیسے مہنگا ہوچکا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ اضافہ سراسر ظلم ہے۔ غریب اس کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے کہ اُن کی آمدن وہی ہے اور مہنگائی تین چار گنا بڑھ چکی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس اضافے کو فی الفور واپس لینے کی ضرورت ہے۔ اس سے گرانی میں مزید شدت آئے گی، جو پہلے ہی بے پناہ تباہ کاریاں مچا رہی ہے۔ پٹرولیم قیمتیں بڑھتے ہی ملک کے مختلف شہروں میں ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ گڈز ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی ہوش رُبا حد تک بڑھا دئیے گئے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کے دام مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ خدارا غریب عوام کی حالت زار پر رحم کیا جائے، اُن کے لیے سفر زیست کو مزید دشوار نہ بنایا جائے۔ اُن کے لیے آسانیاں فراہم کی جائیں۔ غریب عوام کا درد رکھنے والے حکمراں اُن کے مصائب کو کم کرتے ہیں، اُن میں اضافے کی ہرگز وجہ نہیں بنتے۔ آخر کب تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں انتہائی بے رحمی سے اضافہ کیا جائے گا۔ نگراں حکومت کے ایک ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دو بار اضافے سے 58روپے سے زائد بڑھ چکی ہیں۔ ایک ماہ میں ایک لیٹر ایندھن پر یہ اضافہ ہولناک حد تک زیادہ ہے۔ اتنی بے رحمی سے غریبوں کا استحصال کرنے کی روش ترک کی جائے۔ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے۔ غریبوں کے ریلیف کا انتظام کیا جائے۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ قدرت کے عطا کردہ وسائل بے پناہ ہیں، اُنہیں درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔
ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی، 1ارب کی چینی برآمد
ملک عزیز میں ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے اشیاء ضروریہ کا مصنوعی بحران پیدا کرکے ان کی قیمت میں من مانا اضافہ کرکے اپنی تجوریاں دھانوں تک بھرنا ایک ناپسندیدہ مشق بن کر رہ گئی ہے۔ یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ کبھی آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اس کی قیمت آسمان پر پہنچا دی جاتی ہے تو کبھی چینی کی قلت کی صورت حال کے ذریعے لوگوں سے مٹھاس دُور کردی جاتی ہے۔ پھر اس کو من مانے نرخوں پر عوام کو فروخت کیا جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوز اس طرز عمل سے بے پناہ دولت کماتے چلے آرہے ہیں۔ ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ ملک بھر میں متعلقہ ادارے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتے رہتے ہیں کہ یہاں سرکاری اداروں کے افسران اور عملے کو کام نہ کرنے کا جنون سوار ہوتا ہے اور اسی کے عوض اُنہیں ناصرف ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ ملتی ہے بلکہ بے پناہ مراعات بھی میسر آتی ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ ناہنجار عوام کا خون چوسنے والی جونکوں کے سہولت کار بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے ماضی میں کوئی سنجیدہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ محض چند ایک مقامات پر کارروائیاں کرکے اپنی تسلی کرلی گئی، اس کے بعد راوی چَین ہی چَین لکھتا رہا۔ اب پچھلے کچھ دنوں سے ملک کے طول و عرض میں ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلرز کی شامت آئی ہوئی ہے۔ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کیا جارہا ہے، چھاپہ مار کارروائیوں کا سلسلہ دراز ہے، جس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ مارکیٹوں میں چینی، آٹے کے داموں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکی کرنسی کی اسمگلنگ کے ثمرات بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ڈالر کے نرخ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس قسم کی کارروائیوں کو صورت حال کی بہتر رُخ اختیار کرلینے تک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز بھی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف شہرِ قائد میں ایک بڑی کارروائی کی گئی، جس کے نتیجے میں ایک ارب مالیت کی چینی برآمد ہوئی ہے۔ ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق رینجرز نے خفیہ اطلاع پر کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے قریباً 1 ارب روپے سے زائد مالیت کی چینی برآمد کرلی ہے۔ ترجمان رینجرز کے مطابق پاکستان رینجرز سندھ نے چینی اور دیگر اناج کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کردیا ہے۔ چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران کراچی کے علاقے اسلام نگر بلدیہ ٹائون، حب ریور روڈ پر واقع دو مختلف گوداموں سے مجموعی طور پر چینی کی ایک لاکھ 40ہزار بوریاں برآمد کی ہیں۔ ترجمان کے مطابق برآمد کردہ چینی کی مالیت قریباً ایک ارب روپے سے زائد بنتی ہے، ذخیرہ شدہ چینی مبینہ طور پر بلوچستان کے راستے افغانستان بھیجی جانی تھی، برآمد شدہ چینی مزید قانونی کارروائی کے لیے سول انتظامیہ کے حوالے کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق کورنگی میں بھی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جانا ہے، جس میں بھاری مقدار میں آٹا اور چینی برآمد کیے جانے کی توقع ہے۔ سندھ رینجرز کی یہ کارروائی لائق تحسین ہے۔ اس پر اُن کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ دوسری جانب ضرورت اس امر کی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلرز کے خلاف کارروائیوں کو مزید تیز کیا جائے۔ ان کو کسی طور بخشا نہ جائے۔ ان ناجائز منافع خوروں کا ناطقہ بند کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button