Column

کفارہ

سیدہ عنبرین
پانی سر سے اونچا ہو گیا اور سانس رکنے لگا تو، ڈالر، چینی اور بجلی حور مافیا کے خلاق آپریشن کا فیصلہ ہو گیا۔ فیصلہ قدرے تاخیر سے کیا گیا ہے لیکن جس انداز میں فیصلے پر عمل درآمد ہوا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ سماج دشمن اور ملک دشمن عناصر کیخلاف تحقیقات کے بعد وزیر اعظم ہائوس بھجوائی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیل سمگلنگ میں نوے سرکاری حکام، چھہتر ڈیلر شامل ہیں اور سرکاری خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس رپورٹ سے واضع ہوا کہ سماج دشمن اور ملک دشمن سرگرمیوں میں سرکاری گروپ اور پرائیوٹ گروپ دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہے تھے، کالے کاموں سے کمایا گیا کالا دھن نیچے سے اوپر تک تقسیم ہوتا ہے۔ بددیانتی، بدکاری کے کام نہایت دیانت داری سے چلتے ہیں، کسی کو کسی سے شکایت نہیں ہوتی، یہی اس کام کا حسن ہے۔ ڈالر کو لگام ڈالنے کیلئے شروع کیا آپریشن کامیابیوں کی نوید لایا ہے، ڈالر مافیا تواتر سے خبریں پھیلا رہا تھا کہ عنقریب ڈالر پانچ سو تک پہنچ جائیگا، ترغیب دی جارہی تھی کہ ڈالر خریدو، ڈالر فروخت کرو اور مال بنائو، ایک تحقیق کے مطابق ڈالر بزنس میں بھی سرکار گروپ عرصہ دراز سے شامل ہے، ورنہ ڈالر کنٹرول کرنا چنداں مشکل نہ تھا۔
ہر سرکاری دفتر میں چار افراد ڈھونڈنے سے مل جائینگے جو ڈالر بزنس میں کسی نہ کسی حد تک ملوث ہوتے ہیں، اسی طرح سرکار کی ناک تلے پراپرٹی بزنس کرنے والوں کی تعداد میں بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان کا کوئی قانون کسی کو کوئی کاروبار کرنے سے نہیں روکتا، لیکن کام سائیڈ بزنس سے شروع ہوتا ہے پھر وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، منافع کی شرح حلال حرام کی تمیز ختم کر دیتی ہے اور اس دھندے میں چلتے ہوئے لوگ بھول جاتے ہیں کہ ان کے عمل سے ملک کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔
نگران حکومت کے زمانے میں مختلف مافیاز پر ہاتھ ڈالا گیا لیکن یہ کریڈٹ افواج پاکستان کا ہے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر شاہ نے منصب سنبھالنے کے بعد ٹھنڈے دل سے کئی ماہ تک صورتحال کا جائز لیا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اس سلسلے میں انہوں نے بھی کوئی قدم نہ اٹھایا تو سرکاری اور پرائیوٹ مافیا گروپ ملکر ملک کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دیں گے۔
مختلف بینکوں کے لاکرز میں ڈالروں کے انبار لگے ہیں جبکہ اس سے دس گنا زیادہ ڈالر مختلف گھروں کے تہہ خانوں، الماریوں اور دیواروں میں بنی ہوئی خفیہ الماریوں میں محفوظ کئی گئے ہیں، بتایا گیا کہ جدید آلات سے سب کچھ سکین کر کے باہر نکال لیا جائیگا۔ مختلف مافیا سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کب گرفتار ہونگے انہیں ضمانت کی سہولت گھر بیٹھے مہیا کرنیوالوں کا کیا علاج ہے انکا مقدمہ کن عدالتوں میں چلے گا، ان سوالوں کا جواب ابھی آنا ہے لیکن بہتر ہوگا کہ ان ملک دشمنوں کا مقدمہ انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج کیا جائے اور انہی عدالتوں میں چلے۔
ڈالر اور چینی مافیا کا ایک سرغنہ پہلی دستیاب فلائٹ سے ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ وہ اور اس کا خاندان یورپ میں بیٹھ کر صورتحال کا جائزہ لیں گے اور اپنے بچائو کی تدبیر کریں گے۔ اس سے قبل انہیں ’’ اوپن اینڈ شٹ‘‘ کیسز میں سستا اور فوری انصاف ملتا نظر آیا وہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کو فون کر کے حکم دیتے تھے کہ کسی مخالف کو کتنی سزا دینا ہے اور کس کو کیا جرمانہ کرنا ہے۔ جاری کریک ڈائون میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آجائیگی کہ قانون سب کیلئے برابر ہے یا مجرموں کو ایک مرتبہ پھر سہولت دی جائیگی کہ وہ سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی مرضی اپنی سہولت کیلئے قوانین میں ترامیم کر لیں۔
چوروں کی حکومت جانے کے بعد شریفوں کی حکومت کا ڈیڑھ برس چوروں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی اور مختلف مافیاز کو ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ ملک کی اقتصادی تباہی کے ذمہ دار ایک سابق وزیر خزانہ اپنی کارکردگی پر آج بھی شرمندہ نظر نہیں آتے، کہتے ہیں کہ وطن واپسی کیلئے جہاز میں بیٹھا تو ڈالر نیچے آگیا وہ یہ بھی بتائیں کہ ان کے کرسی پر بیٹھتے ہی ڈالر نے پرواز کیوں شروع کی اور وہ اس پرواز کو کیوں نہ روک سکے، حتیٰ کہ ڈالر ایک سو ستر روپے سے تین سو تک پہنچ گیا۔
وہ یہ بھی بتائیں انہوں نے زمانہ اقتدار میں کس کس خاندان اور کس کس شوگر ملز کی چینی ایکسپورٹ کرنے کی راہ ہموار کرائی، انہوں نے کسی مافیا پر ہاتھ بھی ڈالا یا سب کے ساتھ مضبوط کرتے رہے، پی ڈی ایم حکومت میں کئی مفروضے غلط ثابت ہوئے، کئی چہروں سے نقاب اٹھا، جعلی پنجاب سپیڈ اور بعد ازاں پاکستان سپیڈ کے علاوہ جعلی مالیاتی جادوگر کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آیا، اب بھی دعویٰ ہے پانچویں مرتبہ اقتدار دیا جائے تا کہ قوم کی تقدیر بدل سکیں۔
پی ڈی ایم حکومت کے سامنے کوئی اپوزیشن نہ تھی، ان کی حکومت پر مکمل گرفت تھی، وہ چاہتے تو ڈالر، چینی، بجلی اور تیل سمگلنگ و چوری پر قابو پا سکتے تھے وہ ان مافیاز پر کریک ڈائون کرتے تو ملک کے کونے کونے سے صدائے تحسین بلند ہوتی، انہوں نے مہیا کردہ سنہری موقع گنوا دیا اور داغدار چہرے کے ساتھ داغدار دامن لیکر گھروں کو لوٹ گئے۔ انہوں نے اقتدار میں رہ کر جو کچھ کمایا وہ الگ داستان ہے۔ یہ ناکامی درجن بھر سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے ایسی اسمبلیاں جو عام آدمی کو ریلیف دینے کی بجائے تکلیف ہی دیتی رہی ہیں۔ اپنے ایوانوں کو عام آدمی کے خرچ پر پالنے کی کوئی توجیح باقی نہیں رہتی، ایسی جمہوریت کو چاٹ چاٹ کر ملک اور قوم ترقی نہیں کر سکتے، قوم حالت نزع میں ہے، اس کے سانس بحال ہونے کی دیر ہے، کراچی سے خیبر تک آواز بلند ہوگی، اس نظام کو لپیٹ دو، ایسا کرنا ظلم نہ ہوگا کفارہ ہوگا۔ قوم خالص اشیائے ضروریہ کی فراہمی، خالص دوائیں اور خالص انصاف چاہتی ہے، اسے اب جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button