بجلی چوروں کیخلاف ملک گیر کریک ڈائون کا آغاز

چوری کسی بھی چیز کی ہو، اُسے کبھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان میں بجلی چوری کے حوالے سے صورت حال خاصی سنگین ہے۔ ملک کے طول و عرض میں بجلی کی چوری کا سلسلہ کئی عشروں سے دراز ہے۔ بجلی چوری کا بہت بڑا نیٹ ورک ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر بجلی چوری کرکے ملک و قوم کو سالانہ لگ بھگ چھ سو ارب روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو بجلی کی سہولت پاتے ہیں اور بل کی ادائیگی نہیں کرتے۔ ایسے نادہندگان پر لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں روپے کے بل ہوتے ہیں، جن کی ریکوری نہیں ہو پاتی۔ بجلی چوروں اور نادہندگان کا بار باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں پر پڑتا ہے۔ بجلی چور مفت میں سہولت پاتے رہتے ہیں۔ بجلی کے ناجائز اور زائد استعمال سے ملک کے طول و عرض میں لوڈشیڈنگ کی صورت حال رہتی ہے۔ ان چوروں نے برقی نظام کا بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے اور اب بھی متواتر بجلی چوری کی ناپسندیدہ مشق میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے کبھی کبھار شہری اور ضلعی سطح پر کریک ڈائون کچھ عرصے کے لیے ہوتے ہیں۔ کنڈوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ جرمانے عائد کئے جاتے ہیں، لیکن ان سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے، جو ناگزیر ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے ملک کے طول و عرض میں بجلی کے زائد بلوں پر شدید احتجاج جاری ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ اس کی بڑے پیمانے پر چوری کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بجلی کے باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے مہنگی بجلی استعمال کررہے ہیں جب کہ چور مفت میں بجلی کے مزے لوٹ رہے اور بجلی بل بھرنے کی انہیں چنداں ٹینشن نہیں ہوتی، جائز طریقے سے بجلی کے بل ادا کرنے والے تمام تر احتیاط کے باوجود خاصی مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں بجلی چوری کے خاتمے، نادہندگان سے بل وصولی اور بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری کی ضرورت خاصی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں نگراں حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا ہے اور ملک بھر میں بجلی چوری کے خلاف کریک ڈائون کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ نگراں وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوگی اور بل ادا نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک بجلی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی۔ نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد بجلی کی چوری کے حوالے سے بات کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ایک الیکٹرسٹی تھیفٹ کنٹرول ایکٹ پر کام کر رہے ہیں، ساتھ ساتھ خصوصی عدالتیں بھی ہوں گی جہاں اس حوالے سے سزائیں دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ڈومیسٹک صارفین میں سے کچھ ایسے ہیں جو بجلی کی چوری کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو بجلی کے بل ادا نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں 10ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں اور کے الیکٹرک کا اپنا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک ہے، ہر علاقے میں الگ الگ سطح کی چوری ہوتی ہے اور ریکوری کی الگ الگ شرح ہے۔ نگراں وزیر توانائی نے کہا کہ بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے سبب سالانہ 589ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، اس وجہ سے ان لوگوں کو زیادہ ریٹ پر بجلی خریدنی پڑتی ہے جو بل ادا کرتے ہیں، جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوگی اور بل ادا نہیں کئے جائیں گے، اس وقت تک بجلی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت ہے کہ جو لوگ بجلی چوری کرتے ہیں ان کے خلاف ہمیں کریک ڈائون کرنا ہے اور جو لوگ بل ادا نہیں کرتے ان سے ریکوری کرنی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران نگراں وزیر توانائی نے پاور پوائنٹ سلائیڈز کی مدد سے بجلی چوری اور اس کے سبب ہونے والی معاشی نقصان کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کون سے علاقوں اور فیڈرز میں بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی زیادہ ہے اور اسی ڈیٹا کی بنیاد پر ہم کارروائی کریں گے۔ نگراں وزیر توانائی نے کہا کہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی کی چوری بہت زیادہ ہے، ان میں مردان اور شکارپور کے علاقے نمایاں ہیں، ان علاقوں میں بجلی کی چوری کم کرنے کے لیے ہم کریک ڈائون کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی چوری کے معاملے کا بہت اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا گیا ہے اور ہماری کارکردگی کو اسی بنیاد پر جانچا جائے گا کہ ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم مختلف اقدامات کر رہے ہیں، ہم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو دیکھ رہے ہیں اور ہم ان کو اور ان کی انتظامیہ میں تبدیلیاں لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور آئی جیز سے ہماری اس حوالے سے بات ہوچکی اور ہمیں ان کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ محمد علی نے کہا کہ ہم نے ایجنسیوں کی معاونت سے ان افسران کی فہرست تیار کرلی ہے جو بجلی کی چوری میں ملی بھگت کرتے ہیں، ان افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا، ان کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھجوا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم صوبائی اور ضلعی سطح پر ٹاسک فورس تیار کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم ایک الیکٹرسٹی تھیفٹ کنٹرول ایکٹ پر کام کر رہے ہیں، ساتھ ساتھ خصوصی عدالتیں بھی ہوں گی جہاں اس حوالے سے سزائیں دی جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ 2سے 3ہفتے میں اس آرڈیننس کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے کر منظوری کے لیے بھیج دیں اور اس 589ارب روپے کی بجلی چوری کو جلد سے جلد کم کیا جائے۔ بجلی چوری کے تدارک اور نادہندگان سے ریکوری کے لئے کریک ڈائون کا آغاز ناگزیر تھا۔ نگراں حکومت نے احسن قدم اُٹھایا ہے۔ اس پر اُس کی تعریف اور توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کریک ڈائون کے دوررس نتائج برآمد ہونے چاہئیں۔ ایسے اقدامات کئے جانے چاہئیں کہ جن کے ذریعے بجلی چوری کی ناپسندیدہ مشق کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔ بجلی چوروں کو نشان عبرت بنایا جائے کہ آئندہ کوئی ایسے جرم میں ملوث ہونے کا تصور بھی نہ کر سکے۔ الیکٹرسٹی تھیفٹ کنٹرول ایکٹ کے حوالے سے جلد کوششیں کی جائیں اور اسے روبہ عمل لایا جائے۔ بجلی چوری میں ملوث افسران کی لسٹ کے حوالے سے وفاقی وزیر نے گفتگو کی، ان کو نا صرف عہدوں سے ہٹایا جائے بلکہ ان کو کسی طور نہ بخشا جائے، ان کے خلاف ایسی کڑی کارروائی کی جائے کہ آئندہ کوئی بجلی چوری میں سہولت کاری کا تصور بھی نہ کر سکے۔ بجلی چوری سنگین جرم ہے۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ جہاں بجلی چوری ہوتے دیکھیں، اُس کی اطلاع متعلقہ محکمے کو کرکے اپنی ذمے داری پوری کریں۔ بجلی چوری کا مکمل خاتمہ ہوگیا تو ملک عزیز میں بجلی کی قیمت مناسب سطح پر لانے میں خاصی مدد مل سکے گی۔ دوسری جانب بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع ( ہوا، سورج، پانی) کو بھی بروئے کار لانا چاہیے اور اس حوالے سے بڑے پیمانے پر منصوبے نا صرف بنانے چاہئیں، بلکہ انہیں ہنگامی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔
بھارت اقلیتوں کے لیے دوزخ سے کم نہیں
چاہے جتنے دعوے کر لیے جائیں، لیکن یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بھارت انتہا پسند ملک ہے اور وہ اقلیتوں کے لیے جہنم کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انتہا پسند ہندوئوں کا دیش بن چکا ہے۔ دس سال پہلے تک بھارت میں اتنا زیادہ تعصب نہیں تھا، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات ضرور رونما ہوتے تھے، لیکن اُن میں اتنی زیادہ شدّت نہیں تھی، جتنی مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے آچکی ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی بہیمانہ واقعات کے سلسلے چل رہے ہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد ہجوم کسی مسلمان پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگاکر اُس سے حقِ زیست چھین لیتا ہے۔ اُسے صفائی کا موقع دئیے بغیر بے دردی سے تشدد کا نشانہ بناکر مار دیا جاتا ہے۔ کبھی کسی مسلمان لڑکی کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیم، ملازمتوں میں بھی ان کے ساتھ بدترین تعصب برتا جاتا ہے۔ عیسائیوں، سِکھوں، پارسیوں اور دیگر اقلیتوں سے متعلق افراد کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ اُنہیں بھی انتہاپسندوں کے تعصب کے لامتناہی سلسلے درپیش رہتے ہیں۔ بھارت اقلیتوں کے لیے کسی جہنم یا دوزخ سے کم نہیں۔ دوسری جانب دعوے کیے جاتے ہیں شائننگ انڈیا کے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں کوئی تعصب نہیں، کوئی تفریق نہیں، تمام مذاہب کے لوگ آزادی سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ حالانکہ اس میں کوئی سچائی نہیں۔ یہ سراسر جھوٹ اور دروغ گوئی ہے، ایک پروپیگنڈا ہے، جسے متواتر فروغ دیا جارہا ہے۔ وہاں سے نچلی ذات کے ہندو بھی تعصب سے محفوظ نہیں۔ انتہاپسندی کا ناسور بڑوں سے بچوں میں منتقل ہوچکا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے ایک اور منافرت، تفریق پر مبنی واقعہ پیش آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت عروج پر پہنچ گئی ہے۔ انتہاپسندی کے ایک واقعے میں طلبا نے دلت شیف کا پکایا کھانا کھانے سے انکار کر دیا، بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست تامل ناڈو کے کارور ضلع کے ایک سرکاری سکول میں 15سے زائد اونچی ذات کے ہندو طلبا نے ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا، ہندو طلبا کا موقف تھا کہ اسکول انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ ناشتہ دلت خاتون شیف نے بنایا ہے، اس لیے وہ نہیں کھا سکتے۔ ہندو طلبا کے والدین کا کہنا تھا کہ جب تک دلت خاتون کھانا پکائیں گی، ان کے بچے سکول کی طرف سے فراہم کی گئی مفت کھانے کی سکیم کے تحت کھانا نہیں کھائیں گے، ضلعی انتظامیہ نے معاملے کا علم ہونے پر طلبا کے والدین سے رابطہ کرکے قانونی کارروائی کی وارننگ دی، تاہم والدین نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا، بھارت میں مسلمانوں اور دلت سمیت اقلیتوں کے خلاف انتہا پسند واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اعلیٰ ذات کے ہندو بغیر کسی وجہ کے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ تو پھر بھی معمولی نوعیت کا واقعہ ہے۔ انتہاپسندی کے عفریت نے اتنی جڑیں مضبوط بنالی ہیں کہ وہاں اقلیت سے متعلق فرد کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ پورے کے پورے خاندان کا قتل عام کر دیا جاتا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو بھارت میں حالات مزید سنگین شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی بھارت میں علیحدگی کی ڈھیروں تحاریک چل رہی ہیں۔ بھارت سرکار کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور انتہاپسندی کے سلسلے کو روکنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔