بجلی بلوں پر عوام کا شدید احتجاج، ریلیف ناگزیر

اس بار بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکال ڈالی ہیں۔ بجلی بل لوگوں کی آمدن سے بھی بہت زیادہ موصول ہوئے ہیں۔ عوام الناس اسے ظلم قرار دے رہے ہیں۔ پورے ملک میں اس پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس حوالے سے ملک بھر میں احتجاج زور پکڑنے لگا ہے، عوام کی جانب سے بجلی کے بل ادا کرنے کے بجائے انہیں جلانے کی تحریک شروع کردی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں ماہ آنے والے بجلی بلوں کو دیکھ کر عوام مشتعل ہوچکے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف سمن آباد کے رہائشیوں نے احتجاج کیا جب کہ احتجاج کے دوران پکی ٹھٹھی اور ممتاز روڈ کے رہائشی ڈنڈے اور بل تھامے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ٹائروں کو آگ لگادی اور لیسکو حکام کے خلاف شدید نعرے لگائے، اس موقع پر بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ راولپنڈی میں بھی عوام نے بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بجلی کی قیمت کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ چنیوٹ، جھنگ کے عوام بھی مہنگی بجلی کے خلاف پھٹ پڑے، ڈسکہ میں شہریوں نے مہنگی بجلی کے خلاف مظاہرہ کیا، تونسہ شریف میں بھی بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا۔ سرگودھا میں بجلی کے بلوں کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا اور بلوں کو جلاکر سڑک بلاک کردی، جہلم میں کچہری چوک پر وکیلوں، تاجروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مہنگی بجلی کے خلاف مظاہرے میں خواتین بھی شریک ہوئیں، جہانیاں میں مظاہرین نے بجلی کے بل جلائے اور سڑک بند کردی، کبیر والا میں بھی بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ رحیم یار خان میں بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کیخلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے، سٹی انجمن تاجران کی جانب سے بھی ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔ مختلف علاقوں ظاہر پیر، اقبال آباد اور سنی پل پر عوام کی جانب سے مظاہرے کیے گئے اور واپڈا اور حکومت کے خلاف سخت نعرے لگائے گئے جب کہ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکس واپس لیے جائیں۔ وزیرآباد، فیصل آباد میں بھی شدید احتجاج ہوئے۔ بہاولپور میں بھی واپڈا کے اضافی بلوں کے خلاف شہریوں نے کے ایل پی روڈ سندھ اور پنجاب کو ملانے والی قومی شاہراہ بلاک کردی، جس کے باعث مین کراچی ہائی وے پر گاڑیوں کی دور دور تک لمبی قطاریں لگ گئیں، مظاہرین نے حکومت اور واپڈا کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ ملتان، صادق آباد، حجرہ شاہ مقیم، دیپالپور، بنگلہ گوگیرہ، کوٹ مراد خان، میاں چنوں، بہاولنگر میں بھی شدید احتجاج کیے۔جماعت اسلامی اسلام آباد کے زیر اہتمام بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے اور بے تحاشا مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کے سلسلے میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا، شہریوں اور کارکنان بڑی تعداد میں شریک تھے۔ اسی سلسلے میں کراچی میں عوام نے بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کیا، نشتر روڈ، بھیم پورہ، ٹمبر مارکیٹ اور رنچھوڑ لائن میں مظاہرے کئے گئے۔ سکھر میں بھی شہری اور تاجر بجلی کی قیمتوں میں اضافے، اوور بلنگ، ٹیکسز میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ چوک گھنٹہ گھر پر بڑا احتجاجی دھرنا دیا، بجلی کے بل نذر آتش کئے گئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی عوام سڑکوں پر نکل آئے، گنج بازار اور لاہوری چوک کے تاجروں نے احتجاج کرتے ہوئے بجلی کے بلوں کو آگ لگا دی، اٹک میں دھرنا دیتے ہوئے مظاہرین نے بجلی کے بلوں کو آگ لگادی۔ رسالپور میں عوام بجلی کے بھاری کے خلاف سراپا احتجاج عوام نے مردان نوشہرہ جی ٹی روڈ مکمل طور پر ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بلاک کر دیا، بجلی بلوں کے خلاف تاجران نے تجارتی مراکز اور دکانیں بند کر دیں، مشتعل مظاہرین نے واپڈا پیسکو اور حکومت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شہریوں نے بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کیا۔ دوسری طرف مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چودھری نے آج (29اگست) کو مہنگائی ، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کے خلاف کراچی سے خیبر تک ملک گیر یوم احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی نے پاکستانی قوم اور تاجر برادری کو شدید ذہنی مریض بنادیا ہے، یوم احتجاج کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی تو 2ستمبر کو ملک گیر پہیہ جام شٹرڈائون کریں اور حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کو فوری واپس لیں اور مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی قوم کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات کریں گے۔ بجلی کے زائد بلوں پر وزیراعظم نے ہفتے کو نوٹس لیا تھا، اسی لیے میں گزشتہ روز اجلاس ہوا، جس میں ریلیف سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔ نگراں وفاقی حکومت کے ہنگامی اجلاس میں بجلی بلوں کے ستائے عوام کو فوری ریلیف دینے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے متعلقہ اداروں کو آئندہ 48گھنٹے میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کیلئے ٹھوس اقدامات مرتب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی اور کہا کہ ایسے اقدامات کریں گے جس سے ملکی خزانے پر اضافی بوجھ نہ ہو اور صارفین کو سہولت ملے، تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوری کی روک تھام کا روڈمیپ پیش کریں، ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی اور وزیراعظم ان کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کریں، اگر میرے کمرے کا اے سی بند کرنا پڑا تو بے شک بند کردیں۔ نگراں وزیراعظم کی زیر صدارت اتوار کو بجلی کے بلوں میں اضافے پر ہنگامی اجلاس کا پہلا دور منعقد ہوا۔ جاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں وزیر اعظم کو جولائی کے بجلی کے بلوں میں اضافے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے کہا آئندہ 48گھنٹے میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کیلئے ٹھوس اقدامات مرتب کرکے پیش کیے جائیں۔ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جس سے ملک کو نقصان پہنچے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بجلی کے بل بہت زیادہ لوگوں کو موصول ہوئے ہیں۔ تاجر برادری بھی اس پر سیخ پا ہے اور عوام میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت ملک عزیز میں بجلی کے نرخ پہلے ہی بہت زیادہ تھے۔ اب تو تمام حدیں ہی پار کردی گئی ہیں۔ غریب عوام ریلیف کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے فیصلے کیے جائیں کہ جس کا فائدہ غریب عوام کو مل سکے۔ بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ اگر اس حوالے سے مناسب حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو آگے جاکر حالات بہت سنگین رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس لیے دُوراندیشی اور تدبر پر مبنی اقدامات کیے جائیں۔ بجلی کا ٹیرف مناسب سطح پر لایا جائے جو عوام پر گراں بھی نہ ہو۔ دوسری جانب بجلی کے حصول کے سستے ذرائع پر توجہ دی جائے اور اُن سے بجلی حاصل کی جائے تو صورت حال آگے چل کر بہتر رُخ اختیار کر لینے کا قوی امکان ہے۔
جان بچانے والی ادویہ کی قلت، لمحہ فکریہ
ملک عزیز میں ایک طرف غریب عوام پر مہنگائی کے نشتر برس رہے ہیں۔ ایسے میں موجودہ پریشان کُن حالات میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اُس کے لیے جان بچانے والی ادویہ کا حصول ناممکن ہوکر رہ گیا ہے کہ ڈھونڈے سے بھی دوائیں دستیاب نہیں اور کم یاب ہوگئی ہیں۔ ایسی تشویش ناک صورت حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اخباری اطلاع کے مطابق ملک بھر میں دوائوں کی قلت شدّت اختیار کرگئی۔ مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، میڈیکل اسٹورز اور فارمیسیز پر جان بچانے والی 120ادویہ نایاب ہوگئیں۔ ملک بھر کی طرح سندھ میں ادویہ کی قلت شدّت اختیار کرگئی، کراچی کے مختلف میڈیکل اسٹورز پر 120سے زائد دوائوں کی قلت ہے۔ سندھ بھر میں اس وقت امراضِ قلب، بلڈ پریشر، ہیپرین سمیت خون کی کلاٹنگ ختم کرنے والی دیگر دوائیں موجود نہیں، شوگر کی دوا سمیت مختلف انسولین بھی لاہور میں نایاب ہیں، پارکنسنز ڈیزیز، اسٹروک، فٹس، ایپی لیپسی کے لیے ادویہ مارکیٹ سے غائب ہیں جب کہ ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے لیے دوا ہیپامرز بھی مارکیٹ میں موجود نہیں۔ انفیکشن، ڈائریا کی ادویہ، کھانسی کے سیرپ، گردوں، جگر کی ادویہ اور سرجری میں استعمال میڈیسن بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں، پولی فیکس، پایوڈین سمیت زخموں کے لیے استعمال ہونے والی کریمز بھی میڈیکل اسٹورز پر میسر نہیں۔ فارما کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے کے باعث خام مال بہت مہنگا ہوگیا، ڈریپ کے مقرر کردہ نرخوں پر ادویہ کی فروخت ممکن نہیں۔ ایل سیز کھولی جائیں اور ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔جان بچانے والی ادویہ کی شدید قلت تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بے حال ہیں۔ اوپر سے اُن کو اگر بیماری کی صورت میں دوا کی ضرورت ہو تو وہ مارکیٹوں میں میسر نہیں۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اُن کے دُکھوں کا مداوا کون کرے گا۔ یہاں تو اُن کے لیے پچھلے پانچ چھ سال سے زیست کسی عذاب سے کم نہیں۔ مہنگائی تین گنا بڑھ چکی ہے۔ آمدن وہی ہے۔ اُس پر طرّہ اُنہیں امراض کی لپیٹ میں آنے کی صورت میں دوائیں بھی دستیاب نہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کب تک قوم کو ادویہ کی شدید قلت کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور جان بچانے والی ادویہ کی مناسب قیمتوں پر عوام تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے راست اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں۔ عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے حکمرانوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے۔ وہ عوام کے دُکھوں کا مداوا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھتے۔ لہٰذا حکومت اس مسئلے کے حل کی جانب سنجیدگی سے فوری قدم بڑھائے۔