جڑانوالہ کا انتہائی افسوس ناک سانحہ

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اس میں دوسرے مذاہب کے احترام کی خصوصی تلقین کی گئی ہے۔ سچا اور پکا مسلمان کبھی بھی کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اُن کی مقدسات سے متعلق کوئی بھی غلط بات نہیں کر سکتا۔ سچا پکا مسلمان دوسرے ادیان کا احترام کرتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے گزشتہ روز ملک عزیز میں ایک عظیم سانحے کو جنم دیا، یہ کوئی بڑی گھنائونی سازش معلوم ہوتی ہے۔ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزامات لگاکر کئی گرجا گھروں کو توڑ پھوڑ کے بعد نذرآتش کردیا گیا جب کہ کرسچین کالونی کے علاوہ سرکاری عمارتوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں حالات کشیدہ ہیں اور صورتحال پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ (295 بی) اور (295 سی) کے تحت دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شکایت کنندہ جب موقع پر پہنچے تو انہیں وہاں سے قرآن کے اوراق ملے، جن پر سرخ پنسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ایک کیلنڈر بنایا ہوا تھا تاہم ملزم موقع سے فرار ہوچکے تھے۔ فیصل آباد پولیس کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جڑانوالہ کے شہریوں کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف سٹی تھانہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج ہوچکا ہے، اس لیے مظاہرین اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ سے گریز کریں۔ پولیس کے مطابق ملزموں کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے تاہم وہ فرار ہوچکے ہیں۔ پنجاب پولیس کے سربراہ آئی جی عثمان انور نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ (اس علاقے میں) پتلی گلیوں میں 2سے 3مرلے پر مشتمل چھوٹے گرجا گھر واقع ہیں اور ایک مرکزی چرچ بھی موجود ہے، انہوں نے گرجا گھروں کے کچھ حصوں میں توڑ پھوڑ کی۔ امن کمیٹیوں کے ساتھ رابطے قائم کر کے صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور صوبے بھر میں پولیس کو متحرک کردیا گیا ہے۔ عثمان انور نے مزید بتایا کہ عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے کیونکہ لوگ ان کے خلاف ہوگئے تھے۔ مظاہرین نے ناصرف اس بستی میں موجود تین گرجا گھروں کو نذرآتش کیا بلکہ کالونی کے 15مکانات کو بھی آگ لگادی۔ جڑانوالہ کے پادری عمران بھٹی نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ عیسیٰ نگری میں واقع سیلویشن آرمی چرچ، یونائیٹڈ پریس بیٹیرین چرچ اور شہرون والاچرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ عیسائی جس پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس کے گھر کو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔ ادھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جڑانوالہ سے آنے والے مناظر دیکھ کر میں ہل گیا ہوں، قانون کی خلاف ورزی اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے اور حکومت پاکستان اپنے شہریوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف سمیت سیاسی قائدین نے جڑانوالہ میں گرجا گھر کی بے حرمتی اور مسیحیوں کی املاک کو جلانے کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے انتظامیہ سے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی جڑانوالہ میں اقلیتی املاک پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں سن کر لرز کر رہ گئے۔ عبادت گاہوں کے تقدس کی پامالی کسی طور قابل قبول نہیں۔ تحریک انصاف کی سابق رہنما شیریں مزاری نے واقعہ کو شرمناک اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ ہماری مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کرنے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ ادھر پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے مذہبی رہنمائوں نے جڑانوالہ کا دورہ کیا۔ پاکستان علما کونسل اور عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صورت حال پر قابو پانے اور افہام و تفہیم کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے مذہبی رہنما عوام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں پر حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کسی شخص یا ہجوم کو خود جج اور جلاد بن کر کارروائی کا اختیار نہیں۔ مزید برآں نگراں وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے بتایا کہ عوامی جذبات ابھار کر فساد کی کوشش کی گئی، 100افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ یہ ملک عزیز میں امن و امان کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی گھنائونی سازش معلوم ہوتی ہے۔ یہاں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ اُن کے ساتھ یہاں مساوات کا سلوک کیا جاتا ہے۔ بہت سے شعبوں میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ یہ ملک و قوم کے خلاف دشمنوں کی سازش معلوم ہوتی ہے، جو یہاں مسلمانوں اور اقلیتوں کے درمیان مثالی تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس واقعے سے ایسا تاثر اُبھارنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ حالانکہ پاکستان میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ پچھلے 76برسوں سے مل جُل کر رہتے چلے آئے ہیں اور انہیں ہر طرح کی آزادی میسر ہے۔ ان پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ اپنی عبادت گاہوں میں ہر طرح سے اپنے دینی فرائض ادا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ملک میں تمام شعبوں میں اقلیتوں کو وسیع مواقع میسر ہیں۔ ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو اس وقت بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں ایک قوم پاکستانی کی حیثیت سے اتحاد و اتفاق کو مضبوط کریں۔ دشمنوں کی اس سازش کو ناکام بنانے میں اپنا حصّہ ڈالیں۔
ٹرانسپورٹ کرایوں میں بڑا اضافہ
وطن عزیز کے عوام کی زندگی روز بروز مشکل سے مشکل ترین ہوتی چلی جارہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جو اُن کے لیے نئے مصائب اور مشکلات کا باعث نہ ہو۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا۔ پٹرول ساڑھے 17روپے جبکہ ڈیزل 20روپے فی لٹر مہنگا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایل پی جی کی فی کلو قیمت میں بھی 10روپے اضافہ کر دیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی کا بدترین طوفان ساتھ آتا ہے۔ اب بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ پہلے ہی قوم تاریخ کی بدترین گرانی کا سامنا کر رہی ہے۔ اب پھر اُس کی جیب پر بُری طرح نقب لگانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پٹرولیم قیمتیں بڑھتے ہی اشیاء خورونوش کے نرخوں میں ازخود اضافے کر دئیے گئے۔ دوسری جانب ٹرانسپورٹرز بھی پیچھی نہیں رہے، ملک بھر میں نا صرف اندرون شہر چلنے والی گاڑیوں کے کرائے بے پناہ بڑھا دئیے گئے ہیں بلکہ انٹر سٹی بسز کے کرایوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک بھر کے ٹرانسپورٹرز نے اندرونِ صوبہ کرایوں میں 100سے 250روپے اضافہ کر دیا، انٹر سٹی بس مالکان نے بھی 500روپے اضافے پر غور شروع کر دیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد انٹر سٹی بس مالکان نے کرایوں میں 100تا 250 روپے اضافہ کر دیا، جس کے بعد مختلف بڑے شہروں سے دوسرے شہروں کو جانے والی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ہوش رُبا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان ریلوے نے بھی ٹرین کے کرایوں میں 10فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ان اضافوں پر عوام سراپا احتجاج ہیں۔ اُن کی جانب سے اس پر سخت احتجاج سامنے آرہا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پہلے ہی ہوش رُبا گرانی سے پریشان ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کبھی بھی ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی نہیں کی گئی۔ پچھلے مہینوں تسلسل کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی گئی۔ اُس وقت ان کو کرایوں میں کمی کرنے کی ذرا بھی نہیں سوجھی کہ عوام کی جیب پر نقب لگانا ان کا حق ہے۔ اب جب کہ پٹرولیم مصنوعات کے دام کیا بڑھا دئیے گئے، انہوں نے بغیر تاخیر کئے کرایوں میں اضافہ کر دیا۔ یہ کرایوں میں اضافہ غریب عوام پر مزید بوجھ ثابت ہوگا۔ یہاں تو تمام تر بوجھ اُنہی کے ناتواں کاندھوں پر منتقل کرنے کی روش عرصہ دراز سے اختیار کی جارہی ہے۔ کاش کوئی عوام کے مصائب میں کمی لانے کے اقدامات بھی سامنے آسکیں۔