CM RizwanColumn

ہیروشیما، کشمیر اور دو عالمی مجرم

سی ایم رضوان

پانچ اگست 2019دراصل آج کی جدید دنیا کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندی اور ہندوتوا پر مبنی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ جموں، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔
آرٹیکل 370اور 35اے جنوری 1950میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے بنائے قانون تھے۔ انہی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کو لوک سبھا ( بھارتی پارلیمان) میں چار سیٹیں الاٹ کی گئی تھیں۔ ان قوانین کے تحت مقبوضہ کشمیر کو اندرونی خود مختاری دی گئی اور مرکز کو صرف دفاع، مواصلات اور بیرونی معاملات سے متعلق اختیار حاصل تھا۔ یہ آرٹیکل اگرچہ نہرو کی اختراع تھی لیکن اس کا مسودہ نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر گوپال سوامی آئینگر نے تیار کیا تھا۔ یہ آرٹیکل بھی درحقیقت بھارتی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ایک فراڈ تھا جس نے مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ اس نے کشمیر کو اپنے قوانین بنانے، دفاع و خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں خود فیصلہ کرنے کی اجازت تو دی، لیکن یہ صرف خطے کو کھوکھلی خود مختاری کا احساس دلانے کا حربہ تھا۔ اس قانون نے مقامی مقننہ کو ’’ مستقل رہائشیوں‘‘ کو شناخت فراہم کرنے کی اجازت دی، جس کا بظاہر مقصد علاقے کی آبادی کا تحفظ کرنا تھا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کشمیر صرف کشمیریوں کے لئے رہے، جس میں ملازمت، سکالر شپ اور نجی ملکیت سے متعلق مراعات شامل تھیں۔ یہ قانون 1954 میں صدارتی حکم کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا اور یہ آرٹیکل 370کے تحت آتا تھا۔ جبکہ موجودہ بی جے پی حکومت نے اس آرٹیکل کو منسوخ کر کے سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کو حاصل اس خصوصی حیثیت سے بھی محروم کر دیا۔ بی جے پی کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لئے ایک بل پیش کیا۔ یہ اقدام واضح طور پر غیر آئینی تھا کیونکہ آرٹیکل 370میں ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ آئین بنانے والے ہر شق کو آئینی اسمبلی میں پیش کریں اور وہاں سے اسے منظور کرایا جائے۔ اگر بھارت کا صدر یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370کے تحت کوئی حکم دیتا ہے تو یہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔ درحقیقت یہ ( بقول بھارت) دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ماتھے پر ایک بدنما کلنک ہے۔ یہ ایک عالمی سطح کا جرم ہے جس کے ارتکاب سے ایک ریاست کے تمام تر رہائشیوں کو بیک جنبش قلم اس طاقت کا غلام بنا دیا گیا ہے جو خود کو اس ریاست کا فاتح اور قابض سمجھتی ہے اور اس کے عوام سے جانوروں کی طرح کا سلوک کرنا اپنا حقِ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف پانچ اگست 2019سے اب تک چار سال سے زائد عرصہ میں مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے ایک نہ ختم ہونے والے بے رحم دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مقامی لوگ اپنے بنیادی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں سے مسلسل محروم ہیں۔ اس آرٹیکل کی غیر آئینی منسوخی کے فوراً بعد صرف تین دنوں میں سخت لاک ڈان، گرفتاریاں اور زندگی کے تمام شعبوں میں پابندیاں لگائی گئیں اور پانچ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور پندرہ دن کے اندر مزید تقریبا چار ہزار لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بھی گرفتار کیا گیا۔ ایک ماہ میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً بیس کے ساتھ سات سو بائیس احتجاج ریکارڈ کیے گئے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مقامی لوگ آزادی سے کم پر بات نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ ’’ ہم لے کے رہیں گے آزادی‘‘ کی گردان کروڑوں لوگوں کی زبان پر آج بھی جاری ہے جبکہ بھارتی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لوگوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونے کے لئے چالیس لاکھ ڈومیسائل جاری کیے گئے ہیں۔ تقریباً تین ہزار ملتے جلتے سرٹیفیکیٹس نیپال سے گورکھوں اور کچھ نظرانداز شدہ والمیکی کمیونٹی کے لئے مختص کیے گئے تھے۔ یہ پالیسی اسرائیل کی غیر قانونی آباد کاری سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے کہ جب 1948 کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں رہنے کی دعوت دی گئی۔ کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم ہوئے چار سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ کشمیریوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں مگر عالمی مجرم امریکہ اور بھارت خاموش بلکہ ظالم تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔ اس دیرینہ تنازع کی اصلاح مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کرتی ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔
امریکہ نے اٹھہتر برس قبل پانچ اگست 1945کو انسانی تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم گرایا اور یکے بعد دیگرے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو خاک میں ملا دیا۔ امریکہ کی یہ بمباری دنیا کی پہلی، کھلی اور باعث صد نفرین غنڈہ گردی ہے جس میں لاتعداد انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ یہ امریکہ کی ظالمانہ فطرت، لامذہبیت اور اس کے اخلاق سے عاری ہونے کا واضح نتیجہ اور کھلا ثبوت ہے۔ امریکی فوج کا یہ اقدام اس کی سامراجی فطرت کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ کے اس وقت کے صدر ہیری ٹرومین کے حکم پر امریکی فوج نے بی 29جنگی طیارے سے جاپان کے شہر ہیروشیما اور پھر تین روز بعد دوسرے شہر ناگاساکی کے عوام پر ایٹم بم گرایا جس کے نتیجے میں جاپان میں بھیانک انسانی المیہ رونما ہوا اور دو لاکھ بیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ امریکہ نے آج تک اپنی اس جارحیت اور مجرمانہ اقدام پر اقوام عالم بالخصوص جاپان سے معافی نہیں مانگی۔ دنیا جانتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے آخری سال میں امریکہ اور انگلستان نے جاپان پر فوجوں کو بھیج کر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جنگ اس کی بالادستی کے فیصلے پر ختم ہوسکے۔ بے شرم اور سفاک امریکہ کے ظالم حملہ آور لکھتے ہیں کہ ’’ چھ اگست 1945بوقت صبح سوا آٹھ بجے ایٹمی بم گرا دیا، گرنے کے 43سیکنڈ بعد ایٹم بم پھٹا، زبردست روشنی کی چمک، خوفناک، گرم اور ہر چیز میں آگ لگانے والی آندھی اور پھر پورے شہر پر چھا جانے والا مشروم نما بادل‘‘۔ یہ چند الفاظ ان تین امریکی جہازوں (29-B)میں سے ایک خاص جہاز کے کمانڈر کی ڈائری میں لکھے گئے۔ یہ الفاظ اس طرح ہیں جیسے کوئی سپاہی معمولی سی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد لکھتا ہے۔ انسانی تاریخ میں حد درجہ وحشیانہ ہتھیار کا یہ پہلا استعمال کہ چشم زدن میں تین لاکھ سے زیادہ آبادی والا شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ امریکی ہوائی فوج کے یہ تین جہاز اس امر سے بے نیاز تھے کہ ان کے اس بم نے لاکھوں معصوم لوگوں کو سیکنڈوں میں جلا کر خاک کر دیا، جو زندہ بچے ان کی حالت مرنے والوں سے بھی بدتر ہو گئی۔ اڑھائی کلومیٹر کے دائرے میں صرف تین عمارتوں کے ڈھانچے بچے، باقی سب عمارتیں، سکول، ہسپتال، گھر، ہر جاندار شے پیڑ، پودے، کیڑے مکوڑے سب جل کر خاک ہوگئے۔ اٹامک بم ڈوم جو ایٹمی دھماکے سے قبل ایک صنعتی فروغ سنٹر تھا۔ اس عمارت کے سوختہ ڈھانچے کو اس سانحہ کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے تاکہ جاپانی اور دنیا اس واقعہ کو نہ بھولیں اور ایسی غلطی دوبارہ نہ کریں۔
یاد رہے کہ جنگ عظیم دوم کے آخری سال میں امریکہ اور انگلستان نے جاپان پر فوجوں کو بھیج کر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ جنگ ختم ہوسکے۔ امریکہ کے فوجی ماہرین کا یہ اندازہ تھا کہ اس طرح جاپان پر حملہ کرنے میں بہت زیادہ امریکی فوجیوں کی جان جانے کا خطرہ تھا۔ سوویت یونین کے سربراہ اسٹالن نے ابھی تک جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ جاپانی فوجی ہر مورچہ پر بغیر ہتھیار ڈالے اپنے آخری فوجی تک لڑائی کرتے تھے اور اس کی وجہ سے امریکی اتحادیوں کو کافی جانی نقصان ہو رہا تھا جبکہ امریکی عوام اب اس لمبی جنگ سے تھک چکے تھے۔ یورپ میں جنگ ختم ہوچکی تھی، جرمنی نے شکست قبول کرلی اور آٹھ مئی 1945کو ہتھیار ڈال دیئے۔ اب سب کی توجہ جاپان کو شکست دینے پر تھی۔ جاپان کو پوٹسڈین ڈیکلیریشن کے تحت خبردار بھی کیا گیا کہ مکمل تباہی سے بچنے کے لئے وہ فوراً ہتھیار ڈال دے لیکن جاپانی شاہی فوج نے اس انتباہ کو نظر انداز کیا اور جنگ جاری رکھی۔ اس ’’ غلطی ‘‘ کی قیمت جاپانی فوج اور بے قصور عوام نے بدترین امریکی جارحیت کی صورت میں چکائی اور اب تک چکائی جا رہی ہے۔ مگر انسانی حقوق کے تحفظ کے جھوٹے دعویدار امریکہ نے آج تک انسانیت سے معافی نہیں مانگی۔ اسی طرح مودی بھی اپنے جرائم کی معافی مانگنے کی بجائے مزید وسعت اور جارحیت پر کمر باندھے ہوئے ہے۔ پانچ اور چھ اگست کے دونوں ایام میں ان دونوں عالمی مجرموں کی کھلی جارحیت اور بدمعاشی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button