بجلی قیمت میں بڑے اضافے کی منظوری

وطن عزیز میں پچھلے پانچ برس میں مہنگائی کے بدترین طوفان نے غریبوں کی زیست کو ازحد دُشوار گزار بنادیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا خاصا مشکل امر ہے۔ لوگوں کے دو وقت کی روٹی کے لالے ہیں۔ غریب کی اتنی آمدن نہیں کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو آسودہ زندگی فراہم کرنے کا سوچ بھی سکے۔ اُن کی زندگیاں محرومیوں، مایوسیوں سے عبارت ہیں۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں، اشیاء ضروریہ کی قیمتیں پچھلے چند سال کے دوران بے پناہ بڑھی ہیں، ان کے نرخوں میں 3سے 4گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس وقت ملک کے بعض حصّوں میں آٹا اور چینی 150روپے فی کلو فروخت ہورہے ہیں۔ ان اشیاء کا مصنوعی بحران پیدا کرکے قیمتیں مائونٹ ایورسٹ سر کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہر نیا دن مہنگائی سے متعلق کوئی نہ کوئی بُری خبر لے کر آتا اور مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کے لیے مایوسی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس اور ایندھن) کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہلے ہی پہنچے ہوئے ہیں، عالمی ادارے کے مطالبے پر ان کو مزید اوپر لے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہمارے بے چارے عوام پہلے ہی خطے کے تمام ممالک سے کئی گنا مہنگی بجلی استعمال کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں دو کمروں میں رہائش پذیر غریبوں کو لاکھوں روپے ماہانہ بجلی بل بھیجنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکین اپنی محدود آمدن میں اتنے بھاری بھر کم بل کی ادائیگی کرتے وقت خون کے آنسو روتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو سستی بجلی کی ریت ڈالنی چاہیے، لیکن افسوس اس بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ مہنگی بجلی قوم عرصۂ دراز سے استعمال کررہی ہے اور لگتا ہے کہ آئندہ بھی اُنہیں سستی بجلی فراہم نہیں کی جاسکے گی، کیونکہ اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کے فقدان دِکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ روز عوام پر پھر برق گرادی گئی ہے۔ مرکزی کابینہ کی جانب سے بجلی 7روپے 50پیسے فی یونٹ تک مہنگی کرنے کی منظوری دے کر عوام پر پھر برق گرادی گئی۔ نجی ٹی وی کے ذرائع کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 3سے 7روپے 50پیسے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سمری کی منظوری دے دی ہے، حکومت نے بنیادی قیمت میں اضافے کی درخواست نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں دائر کردی ہے، نیپرا اب وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کے بعد فیصلہ دے گا۔ نیپرا کے فیصلے کے بعد وفاقی حکومت اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردے گی۔ ذرائع کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے کرنے کی تجویز ہے، 100یونٹ والے گھریلو صارفین کے لیے
بجلی 3روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی تجویز ہے، 101سے 200یونٹ والے صارفین کے لیے بجلی 5روپے مہنگی کرنے کی تجویز ہے، 201سے 300یونٹ والے صارفین کے لیے بجلی 5روپے مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 301سے 400یونٹ والے صارفین کے لیے فی یونٹ بجلی 6روپے 50پیسے مہنگی کرنے کی تجویز ہے جب کہ 400 سے 700یونٹ والے صارفین کے لیے بجلی ساڑھے 7روپے مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔ خیال رہے کہ نیپرا رواں مالی سال کے لیے بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی منظوری پہلے ہی دے چکا ہے۔ سیکریٹری پاور ڈویژن راشد لنگڑیال کا کہنا ہے کہ بجلی کے 55فیصد صارفین پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا، اس کا اطلاق 45فیصد صارفین پر ہوگا۔ بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے بڑی تعداد میں عوام متاثر ہوں گے اور اُن کی جیب پر بڑا بار پڑے گا۔ کم یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے 3روپے فی یونٹ اضافہ بھی بڑا بوجھ ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح 200، 300یونٹ کے اکثر صارفین دولت مند طبقے سے تعلق نہیں رکھتے جو اس اضافے سے محفوظ رہیں گے۔ اُن پر بھی بار میں بڑا اضافہ ہوگا۔ عوامی مفاد میں اس فیصلے کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر ہمارے وطن میں بجلی اتنی مہنگی کیوں ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی کے مہنگے ذرائع سے نجات حاصل نہیں کی جارہی اور سستے ذرائع کو بڑے پیمانے پر بروئے کار نہیں لایا جارہا؟ یہ سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ضروری ہے کہ بجلی کے مہنگے ذرائع سے فوری جان چھڑائی جائے اور بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ عوام کافی طویل عرصے سے مہنگی بجلی استعمال کرکر کے تھک چکے ہیں۔ اب اُن کی اشک شوئی کے لیے سوچا جانا چاہیے اور حکومت کو سستی بجلی کی وافر پیداوار کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے اب تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں۔ اگر اب بھی لیت و لعل سے کام لیا گیا تو تاریخ حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر سستی بجلی ( ہوا، پانی، سورج) کے منصوبے بنائے جائیں، اُنہیں ہنگامی بنیادوں پر پایۂ تکمیل کو پہنچایا جائے، اُن سے بجلی کشید کی جائے، شفافیت اور ایمان داری کو ہر صورت ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس ضمن میں چین سے بھی تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب چھوٹے ہوں یا بڑے، فوری ڈیمز بنائے جائیں۔ اس سے نا صرف پانی کی مستقل قلت سے نجات ملے گی بلکہ یہ وافر بجلی کے حصول کا باعث بھی ثابت ہوں گے۔ افسوس یہاں جب بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی بات کی گئی تو سیاست چمکانے کے لیے اس عظیم منصوبے کی بدترین مخالفت سامنے آئی۔ ہم عرصہ دراز سے بڑے ڈیمز بنا نہیں سکے ہیں اور ہمارے پُرانے زمانوں میں بنائے گئے بہت سے ڈیمز اپنی مدت ناصرف پوری کر چکے بلکہ اُن میں ریت بھرنے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں بھی خاصی کمی واقع ہوچکی ہے۔ ہر برس تیز بارشیں ہمارے لیے سیلاب کا عذاب لاتی ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر سے اس مسئلے کا مستقل حل بھی نکلے گا۔ بڑے پیمانے پر ڈیمز تعمیر کرنے سے تین دیرینہ اور سنجیدہ نوعیت کے مسائل کے حل کی سبیل ہوسکے گی۔ ملک و قوم کے مفاد میں سوچا جائے اور اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔
بارشوں سے تباہی
ملک بھر میں اس وقت مون سون سیزن چل رہا ہے اور بعض حصّوں میں تیز بارشیں دیکھنے میں آرہی ہیں، جن سے بڑی تباہی کی صورت حال جنم لے رہی ہیں۔ گزشتہ روز بھی 9افراد جاں بحق ہوگئے۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، وہاں کے مختلف شہروں میں موسلا دھار بارشوں کے سلسلے جاری ہیں۔ ملک کے دیگر خطوں میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ گزشتہ روز لاہور سمیت ملک کے بیشتر اضلاع میں بارش نے تباہی مچا دی۔ چھتیں، دیواریں گرنے اور سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچوں سمیت 9افراد جاں بحق ہوگئے۔ لاہور میں انڈر پاسز، مارکیٹوں، گھروں میں کئی فٹ پانی بھر گیا۔ گلبرگ اور کینال روڈ سمیت مختلف مقامات پر سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے۔ ٹریفک سسٹم درہم برہم ہوگیا۔ فیڈرز ٹرپ کرنے سے بجلی گھنٹوں غائب رہی۔ جنرل اسپتال اور جناح اسپتال پانی سے بھر گئے۔ ملکہ نورجہاں کے مقبرے کی بیرونی دیوار گر گئی۔ چترال میں شدید سیلاب کے نتیجے میں درجنوں مکانات قیمتی سامان اور مویشی بہہ گئے، سڑکیں اور رابطہ پل ٹوٹ گئے، جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ قیمتی سامان اور مویشی بہہ گئے۔ چترال شاہی قلعہ میں پانی گھس گیا۔ لاہور پھر ڈوب گیا، نشیبی علاقے زیر آب اور پانی گھروں میں داخل ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات درپیش رہیں، نظام زندگی درہم برہم ہوگیا، انڈر پاسز اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔ ڈوبنے اور دیگر حادثات میں بچوں سمیت 9افراد جان کی بازی ہار گئے۔ بارشوں سے اتنی زیادہ اموات افسوس ناک ہیں۔ چار روز قبل بھی برسات کے باعث اسلام آباد میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا اور بارہ مزدور دیوار گرنے سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ شہریوں کو موسم برسات میں خصوصی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لاہور میں مسلسل تیز بارش کے بعد عوام کی اکثریت گھروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ویسے بھی ایسے موسم میں شہریوں کو غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بجلی کے استعمال میں احتیاط کا دامن تھاما جائے۔ گیلے بدن میں بجلی کے آلات استعمال کرنے سے گریز کیا جائے، اس سے کرنٹ لگنے کا احتمال رہتا ہی۔ لوگ بھی باہر بجلی کے کھمبوں وغیرہ سے دُور رہ کر گزریں۔ انتظامیہ برسات کے حوالے سے موثر اقدامات کرے، تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔